چترال کا روایتی کھیل “پولو” اور ” جشن شندور” تاریخ کے جھروکوں میں۔۔محمد الیاس (کوشٹ چترال)

Print Friendly, PDF & Email

Let the people play at other things – The king of Games is still the Game of Kings.
یہ تاریخی جملہ جو گلگت بلتستان کے ضلع سکردو کے پولو گراؤنڈ کے احاطے میں موجود ایک پتھر پر کندہ ہے پولو کی تاریخی پس منظر، اسکی جنگجوانہ خاصیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے اور پولو کھلاڑیوں کے جذبات کی ترجمانی کرنے کے لئے کافی ہے۔
ایشیائی کھیل کی حیثیت سے پولو کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے جب خانہ بدوش جنگجو مہمات کے دوران اپنے پڑاؤ کے احاطے میں یہ کھیل کھیلا کرتے تھے۔ مورخین کا خیال ہے کہ پولو نے 485-521قبل مسیح کے دوران ایرانی قبائل کے درمیان فروغ پایا۔اسکے شواہد ہمیں قدیم ایرانی ادب، تصاویر اور شاعروں کے کلام سے ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایران کے مشہور مورخ “فردوسی”نے اپنی نویں صدی عیسوی کے شاندار مثنوی “شاہنامہ”میں عہد قدیم کے شاہی پولو مقابلوں کاتفصیلی ذکر کیا ہے۔ چنانچہ یہ کھیل ایران سے شروع ہوتا ہوا مشرقی ایشیاء میں چائنا، جاپان، منگولیا اور جنوبی ایشیاء میں بر صغیر پاک و ہند، نیپال اور پھر مغرب تک پھیلتا چلا گیا۔ یورپ میں اس کھیل کی مقبولیت زمانہ قدیم سے معدوم تھی۔ جسکی وجہ مورخین یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ پولو ایک جنگجوانہ اور مہم جوانہ کھیل ہے اور یورپی افواج جنگوں کے دوران ہلکے روایتی ہتھیاروں کے استعمال کی نسبت بھاری مشینی ہتھیاروں کو ترجیح دیتے تھے لہٰذا ایشیائی افواج کی طرح ان میں پولو یا اس قسم کے کسی بھی متبادل کھیل کا رواج نہیں تھا۔
ہندستان میں یہ کھیل مغلوں کے ساتھ آیا جن کی منظر کشی ہمیں مغل دور کی بعض عمدہ تصاویر سے ملتی ہے۔ ہندستان کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں یہ کھیل “ساگول کنگ جئی(Sagol Kangjei)” کے نام سے مقبول تھا۔ جہاں یہ کھیل چین کی توسط سے پہنچا۔ پاکستان کے شمالی علاقوں، سکردو، لداخ، کارگل اور دیگر ممالک نیپال اور تبت وغیرہ کے چند دیہات میں یہ کھیل زمانہ قدیم سے موجود تھا۔ شمالی پاکستان میں یہ کھیل “چوگان”کے نام سے مشہور تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب پولو منظر سے اوجھل ہوتا دکھائی دیا لیکن تصاویر اور مورخین کے سفرناموں میں کسی نہ کسی طرح زندہ رہا۔ انیسویں صدی کے وسط میں برطانیہ میں اس کھیل کی پزیرائی ہوئی اور بیسویں صدی کے اوائل میں امریکہ میں بھی اسے ایک تیز ترین کھیل کے لحاظ سے جانا جانے لگا۔اولمپک کھیل کی حیثیت سے اسکی اہمیت 1900ء سے 1939ء تک محدود رہی تاہم 1998ء میں عالمی اولمپک کمیٹی کی طرف سے فیڈریشن آف انٹرنیشنل پولو کی بحیثیت انٹرنیشنل گوورننگ باڈی حیثیت تسلیم کی گئی اور یوں پولو باقاعدہ اولمپک مقابلوں کا حصہ بن گئی۔ پروفیشنل کھیل کی حیثیت سے پولو ارجنٹینا، برطانیہ، پاکستان، ہندستان اور امریکہ میں مشہور ہے۔ پولو کی دنیا میں ارجنٹینا کے ہیگوئی (Heguy) خاندان کو خاصی مقبولیت حاصل رہی ہے۔ اسی طرح امریکہ میں خواتین کی پروفیشنل پولو لیگ بھی اپنی ایک منفرد حیثیت کی وجہ سے کافی مقبول ہے۔
چترال میں پولو مغلوں کے ساتھ آیا اور انگریزوں نے اس کھیل کا نام “پولو”رکھا جو کہ بالٹک لفظ ‘پلو’سے لیا گیا ہے جسکے معنی بید کے درخت کی جڑ ہے جس سے عام طور پر پولو گیند بنائی جاتی ہے۔ انگریزوں نے اس کھیل کو فروغ دیا اور اسکی سرپرستی کی۔ جسکی مثال ہمیں ایک برطانوی آفیسر لیفٹنٹ کرنل ایولین کب کی پولو کھیل میں غیر معمولی دلچسپی سے ملتی ہے۔ وہ چترال سے 149کلومیٹر دور12500فٹ بلندی پر واقع شندور پولو گراؤنڈ سے کچھ فاصلے پر واقع ایک دوسرے پولو گراؤنڈ ‘مس جونالی’میں چترالی زعماء کے ساتھ رات کو چاند کی روشنی میں پولو کھیلا کر تا تھا۔ انگریزوں کے چترال سے چلے جانے کے بعد بھی پولو کھیل کی مقبولیت اور اہمیت میں کوئی کمی نہیں آئی اور ریاستی سرپرستی میں اسے مزید فروغ ملا۔ سابق ریاست چترا ل میں پولو کے سالانہ مقابلے ہوا کرتے تھے، تاہم پہلی بار24مئی1938ء کو شمالی علاقہ جات (غذر اور یاسین) اور نیپال کے کھلاڑیوں پر مشتمل پولو ٹیمیں سالانہ پولو ٹورنامنٹ میں شرکت کے لئے پہلی بار چترال آئیں۔ یہ مقابلہ نیپال کی ٹیم جیت گئی۔ 1957میں چترال کے اس وقت کے پولیٹکل ایجنٹ نوابزادہ محمد ایوب خان نے پولو ایسوایشن تشکیل دی اور بعد میں اسے پولو انجمن کا نام دیا۔ جس نے چترال میں پولوکو فروغ دینے پر خصوصی توجہ دی۔
چترال اور گلگت بلتستان کی ٹیموں کے درمیان پولو کے روائتی مقابلے سالہا سال سے جاری ہیں۔ دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا مقابلہ1959ء کو شندور میں کھیلا گیا۔ جسے چترال کی ٹیم نے 9گول سے جیت لیا۔ اسکے بعد 1965ء میں انہی دونوں ٹیموں کے مابین شندور کے مقام پر ہی دوسرا مقابلہ ہوا جسے گلگت کی ٹیم نے جیت لیا اسکے بعد 1967ء میں پھنڈر (گلگت) اور پھر 1982ء میں دوبارہ شندور کے مقام پران دونوں ٹیموں کے مابین پولو کے مقابلے منعقد ہوئے۔ ان دونوں روائتی حریفوں کے مابین پولو مقابلوں کو باقاعدہ جشن کی شکل اس وقت دی گئی جب جنرل ضیاء الحق مرحوم نے 1986ء میں جشن شندور کے موقع پر اس جشن کے سالانہ انعقاد کا باقاعدہ اعلا ن کیا۔
چترال میں پولو کا کھیل (استور غاڑ) اپنے ایک منفرد انداز (فری سٹائل) کی وجہ سے اور بھی دلچسپ تصور کیا جا تا ہے۔ ایک ٹیم 6کھلاڑیوں پر مشتمل ہو تی ہے۔ گول (سکور)کرنے کو ‘ہاڑ’ کہا جا تا ہے۔ گول (ہاڑ) کرنے کے بعد اسی ٹیم کا ایک کھلاڑی پولو گیند (پڑینجو) کو ہاتھ میں اٹھائے گھوڑے کو پوری رفتار کے ساتھ دوڑاتے ہوئے سنٹر لائن کی طرف آتا ہے اور پولو گیند (پڑینجو) کو ہوا میں اچھالتے ہوئے پولو سٹک (غالوتسن) کے ساتھ مخالف گول کی طرف زور سے مارنے کی کوشش کرتا ہے جسے ‘تھامپوق’کہتے ہیں۔ اس طرح ہر گول (ہاڑ) کے بعد ٹیم کی سائڈ تبدیل ہو جاتی ہے۔ پولو میچ کے دوران فنکاروں کی طرف سے شہنائی(سرنائی) اور ڈھولک(دول) پر روائتی گیت گانا پولو کھیل کا ایک لازمی جز تصور کیا جا تا ہے۔ چترال میں پولو کی متعدد ٹیمیں ہیں۔ جسمیں سب ڈویژن مستوج، چترال اے، چترال پولیس، چترال لیویز اور چترال سکاؤٹس ٹیمیں قابل ذکر ہیں۔ چترال کے پولو کے قابل ذکر سابق کھلاڑیوں میں میانہ باز چارویلو مرحوم (نوغور موڑی کوشٹ)، میاں گل جان مرحوم (ربت کوشٹ)، مظفر علی مرحوم (جنگ بازار چترال)، سردار احمد مرحوم (کوشٹ)، سردار (جنگ بازار چترال)، منیر احمد (یارخون)، مقبول احمد (جنگ بازار چترال) جبکہ موجودہ کھلاڑیوں میں رضا خان (گوہکیر)، شہزاد احمد المعروف شاہ جی (سونوغور)، محمد اعظم لال (کوشٹ)، شمیم احمد (کوشٹ)، شہزادہ سکندر الملک (مستوج)، نصیر اللہ (ریشن) ریاض علی شاہ المعروف پردوم (زرگراندیہہ) اور اظہر (جنگ بازار چترال) قابل ذکر ہیں۔
امسال بھی 29سے 31جولائی تک سہہ روزہ جشن شندور کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ جو چترال اور گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سیاح دنیا کے بلند ترین پولو گراؤنڈ میں گلگت بلتستان اور چترال کی پولو ٹیموں کے مابین مقابلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جبکہ روائتی موسیقی کی محفلوں سے ا ٓراستہ جھیل شندور کی مسحور کن شامیں اہل فکر و نظر کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔