وزیر اعظم ایک دفتر سے دوسرے دفتر میں گئے ہیجان پیدا کیا گیا کرکٹ ٹیم ایک میچ میں ہار گئی ہیجا ن پیدا کیا گیا کرکٹ ٹیم ایک اور میچ جیت گئی پھر ہیجان پیدا کیا گیا چاند دیکھنے پر ہیجان کی کیفیت، چاند نظر نہ آنے پر ہیجان کی کیفیت یہ ہمارا روز کا معمول بن چکا ہے ہیجان کے لئے انگریز ی میں ٹینشن(Tension) کا لفظ استعمال ہوتا ہے ہم سارا سال ٹینشن کی حالت میں رہتے ہیں بلکہ جان بوجھ کر، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمیں سال بھر اسی حالت میں رکھا جاتا ہے پاکستان سے باہر کسی ملک کا وزیر اعظم کسی دوسرے دفتر میں جائے تو اخبار میں خبر نہیں آتی اگر بہت غیر ذمہ دار اخبار نویس ہو تو اس خبر کو اندرونی صفحات میں اعلان گم شد ہ کے اشتہار کی طرح ایک کالمی سرخی کے ساتھ 18یا 20 الفاظ میں شائع کر ے گا ا س سے زیادہ اہمیت وہ بھی نہیں دیگا ہمارے ہاں وزیر اعظم کا جو ڈیشنل اکیڈیمی جا نا پانچ دنوں تک شہ سرخیوں میں شائع ہو ا ٹی وی چینیلوں نے اپنا قیمتی وقت اس پر ضائع کیا جو مواد کے اعتبار سے خبر کے زمرے میں آنے کے قابل نہیں تھاسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم کو ہیجان میں مبتلا کر کے پاگل بنا نے والا کون ہے؟ کیا اس کا ذمہ دار سیاسی لیڈر ہے کیا یہ ذمہ داری میڈیا پر عائد ہوتی ہے؟ کیاس کا ذمہ دار ہمارے ملک میں رائے عامہ کا پست ترین معیار ہے؟ اگر یہ بات ہے تو رائے عامہ کے معیار کو پستی میں کس نے دکھیلا ہے َ؟ میرے سامنے دونوں اخبارات ہیں وہ اخبارات بھی ہیں جن میں بھارت سے میچ ہار نے پر کرکٹ ٹیم کو غلیظ گالیاں دی گئیں بر ابھلا کہا گیا، ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کے خلاف بھو نڈے الفاظ استعمال کئے گئے نجم سیٹھی کو بر ابھلا کہا گیا میرے سامنے وہ اخبارات بھی ہیں جن میں دوسرا میچ بھارت کے مقابلے میں جیتنے پر ٹیم کو شاباش دیتے ہوئے گرین شرٹس کو شاہینوں کا خطاب دیا گیا ان کی تعر یف میں زمین آسمان کے قلابے ملا ئے گئے سرفراز احمد کو ہیر و کو درجہ دیا گیا میر ے سامنے وہ اخبار بھی ہے جس میں وزیر راعظم کی جو ڈیشنل اکیڈیمی آمد کو تاریخی واقعہ قرار دیکر اس روز مسلم لیگی کا رکنوں کو جوڈیشنل اکیڈیمی کا محاصر ہ کر نے کی دعوت دی گئی میرے سامنے وہ اخبارات بھی ہیں جن میں کابینہ کے وز راء کو وزیراعظم کی جوڈیشنل اکیڈیمی آمد کے موقع پر جلوس کی شکل میں یہاں آتے ہوئے دکھا یا گیا تاریخ رقم کر نے کی بات ہوئی مخالفیں کی طرف سے کہا گیا کہ تاریخ رقم کرنے سے پہلے رقم واپس کرو یہ تماشا اس لئے نہیں لگا یا گیا کہ رائے عامہ کی پستی میں کار فر ما عنا صر کی خواہش تھی یہ تماشا اسلئے لگا یا گیا کہ یہ وزیر اعظم کی خواہش تھی کا بینہ کے وزراء کی خواہش تھی وزیر اعظم کے گھروالوں کی خواہش تھی 1990 کے عشرے میں ہمارے 10 سال محترمہ بے نظیر بھٹو اور محمد نواز شریف کی ذاتی دشمنی میں ضائع ہو گئے 2013 ء سے شروع ہونے والا عشرہ پھر ایسا ہی منظر دکھا رہا ہے میانوالی اور رائیو نڈ فارم کے دو آدمیوں کی ذاتی دشمنی کا مسئلہ ہے کوئی عو امی ایشو نہیں ہے عوام کے مفاد کی کوئی بات نہیں ہے دونوں بندوں سے کہا جائے کہ جاؤ اپنی دشمنی جاری رکھو قوم اور ملک کو معاف کرو ٹی وی کے ناظرین کو معاف کرو اخبارات کے قارئین کو معار ف کرو بچوں کو پاگل نہ بناؤ بوڑھوں کو پاگل نہ بناؤ وطن کے معصوم او ربے گنا ہ شہریوں کو پاگل نہ بناؤ ملک کے دو شہریوں کی ذاتی دشمنی اس قابل نہیں کہ اس پر قوم کا قیمتی وقت ضائع کیا جائے، کرکٹ کی بالنگ، فیلڈنگ یا بیٹنگ کا بدلتا ہوا معیار اس لائق ہر گز نہیں کہ آسمان کو سر پر اُٹھا لیا جائے ہر گز نہیں اس کی کوئی تُک نہیں بنتی بر طانیہ کا وزیراعظم اپنے ملک کے کسی دفتر میں جانے کا ارادہ کرے تو اس پر خبریں نہیں چھپتیں تبصرے نہیں ہوتے یہ روز کا معمول ہے یہ روٹین ہے ایسا ہوتا رہتا ہے ہیجان آمیزی اور ہیجان انگیز ی کی کوئی ضروورت نہیں اگر قومی کرکٹ ٹیم ایک میچ ہار گئی تو اس پر ہیجان پیدا کر نے کی کوئی ضرورت نہیں کھلاڑیوں کو بُرا بھلا کہنے کی کوئی تُک نہیں بنتی یہی ٹیم، یہی کھلاڑی ایک ہفتہ بعد جیت جائیں تو خوشی سے پھولے نہ سمانے، ہوائی فائر نگ کرنے، روشنی کے گولے داغنے کی چنداں ضرورت نہیں ہارجیت کھیل کا حصہ ہے مہذب دنیا میں اس کو روٹین کا درجہ دیا جاتا ہے پاکستانی قوم کو کسی نے پاگل بنا یا؟ اس سوال کا جواب آسان اور سادہ ہے پاکستانی قوم کو ہمارے لیڈروں نے پاگل بنا یا ہے یہ لوگ ہرروز اخبار میں اپنی تصویر لگا نا چاہتے ہیں اخبار والے اُن کی تصویر کے ساتھ اوٹ پٹانگ خبر بھی لگا لیتے ہیں ہیجانی کیفیت اور ٹینشن شروع ہوجاتی ہے ناظرین ٹی وی دیکھتے ہیں تو یہ گلا سڑا مواد مل جاتا ہے قارئین اخبار اُٹھا تے ہیں تو یہ بے سرو پا مواد سامنے آجاتا ہے دنیا بھر میں ایسادستور ہے کہ لیڈروں نے رائے عامہ کی تشکیل کی ہے عوام کی رہنمائی کی ہے پاکستان میں اس کے برعکس لیڈروں کا یہ کام ہے کہ رائے عامہ کی پیروی کریں گڑ بڑ یہاں سے شروع ہوتی ہے اور ہیجان آمیز ی کی لت یہاں سے پیدا ہوتی ہے پرواں چڑھتی ہے اور ہمیں پاگل بنا دیتی ہے۔
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ابھی راہبر کو میں
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات