فکر فردا کا فقدان۔۔تحریر: اقبال حیات ؔ آف برغذی

Print Friendly, PDF & Email

ایک طویل عرصہ تاریکی میں بیتنے کے بعد ایک نجی ادارے کے زیر انتظام برموغ گولن میں ہائیڈل پراجیکٹ کی تعمیر کے بعد آزمائشی طور پر بجلی لائن پر چھوڑنے سے گھروں کے اندر اچانک روشنی آ نے پر ایک عجیب کیفیت دیکھنے کو ملی بچوں کے گھروں سے باہر نکل کر “بجلی آگئی ” کے نعروں سے مسرت کا اظہار کیا گیا۔ اور بڑے بوڑھے خوشی سے پھولانہ سمائے پانی ٹھنڈا کرنے، کپڑے استری کرنے اور دیگر امور کی انجام دہی کی طرف لپکے۔ اور یوں ہر چند لمحوں کے بعد بجلی کی تر سیل منقطع ہونے اور آنکھ مچولی کا سلسلہ شروع ہونے پر صارفین کی زبانوں سے نکلنے والے “اوہو”کا سلسلہ شروع ہوا۔ در حقیقت تاریک دنیا کے باسیوں کی طرف سے اچانک بجلی کی روشنی دیکھ کر مسرت کا اظہار کرنے کی کیفیت کو اگر سائنس کے ارتقائی دور پر ماتم کے مترادف قراردیا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ ایکسویں صدی میں جب کہ انسان چاند پر کمند ڈالنے میں سرگرم عمل ہے اور بجلی کی لمحے کیلئے بریکڈاؤن کو قومی المیہ تصورت کیا جاتا ہے۔ اور ہم ابی وسائل سے مالا مال علاقے میں رہتے ہوئے بھی اپنی زندگی میں اجالے دیکھنے کی آرزؤں سے نہ نکلے۔ اُ دھر روشنی کی چھوٹی سی کرن پر حق دعویداری کے سلسلے میں گزشتہ کئی مہینوں سے اپس میں بر سر پئیکاررہنا ہماری ذہنی کوتاہی پر دلالت کرنے کے لئے کافی ہے۔ ایک دوسرے پر گرجنے اور برسنے کے اس معر کے میں شاید دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ مشاورتی اجلاس ہوئے ہونگے۔ اور ایک طرف ہماری بے حسی کی کیفیت یہ ہے کہ ریشن ہائیڈل پاؤر سٹیشن سیلاب برد ہوئے دو سال کا طویل عرصہ گزر گئے جہاں صارفین خاموشی کی نیند کی آغوش میں چلے گئے وھاں نہ حکومت اور متعلقہ ادارے کے چہروں پر شرم و حیا کے آثار دیکھنے کو ملے اور ہمارے نمائندے تو ویسے بھی اپنی اور اپنی اولاد کی دنیا سنوارنے میں مگن ہیں۔ہمارے زندہ باد کے نعروں کی گونج میں مسند نمائندگی کا جامہ عیش زیب تن کرنے کے بعد ان کا ہم سے ناتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر بھی نمائندگی کے چناؤ کے دوران ہمارے جذبات میں کمی نظر نہیں آتی مگر روشن دنیا دیکھنے کی حسرت پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ حقیقتاً ہم میں جہاں اچھے اور برے کی تمیز کا مادہ موجود نہیں وہاں حق کیلئے طلب کی جرات سے بھی عاری ہیں۔ اور اپنی دنیا سنوارنے کے احساس کا فقدان ہے۔ اور صرف پارٹی نام سے وابستگی کو جنون کی حد تک اپنائے رکھتے ہیں اور پوری قوم کی مستقبل پر پڑنے والے اس دیوانگی کے منفی اثرات کا ادراک نہیں رکھتے۔ حالانکہ قرآن پاک کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال خود اپنی حالت آپ بدلنے کا۔
٭٭٭