کسی کی طر ف سے زرعی قرضے کی قسط جمع کرنے وریجوں کے زرعی بنک میں گیا۔منیجر صاحب اپنے آفس میں کام کر رہے تھے۔اس کا عملہ کام میں مصروف تھا۔۔باہر لان میں ایک بزرگ افسردہ افسردہ بیھٹا ہوا تھا۔۔اس کی آنکھوں میں افسردگی تھی۔۔قوی مضمحل تھے۔۔ہنسی غائب تھی۔۔لگتا تھا کہ آخر عمر میں مٹی خراب ہو چکی ہے۔۔اس کی کمر جھکی ہوئی تھی۔۔وہ سراپا سوال تھا۔۔سراپا درد تھا۔۔اس کی زندگی اس کے لئے بوجھ بن گئی تھی۔۔اس نے بمشکل میرے سلام کا جواب دیا۔۔مجھے منیجر صاحب کے آفس جانا تھا۔۔آفس میں داخل ہوا۔۔اپنا تعارف کرایا۔۔مجھے میرے ذمے کے پیسے بتائے گئے۔۔پیسے لے کے مجھے رسید تھما دی گئی۔۔میرا دل مچل رہا تھا۔۔کہ پھر سے دوڑ کر اس بزرگ کے پاس چلا جاؤں۔۔میں دفتر سے نکل کر پھر سے اس بزرگ کے پاس آیا۔۔بزرگ سے بنک میں آنے کی وجہ پوچھا۔۔اس نے گویا داستان غم سنانا شروع کیا۔۔۔بیٹا ہم جب بچے تھے تو ہمارے والدیں ہمیں مختلف چیزوں سے ڈراتے تھے۔۔کہتے کسی کو گالی مت دو۔۔چوری نہ کرو۔۔لڑو مت۔۔پھر تھانے اور عدالت کا نام لے کان پکڑتے۔۔اور بے اختیار ان کی زبان سے نکلتا کہ اللہ دوست دشمن سب کو بچائے۔۔پھر ہسپتال کانام لیتے پھر دعا مانگتے۔۔۔پھر کہتے کہ اللہ سب کو قرض کے عذاب سے بچائے۔۔پھر ہمیں نصیحتیں کرتے۔۔بیٹا بھوکے رہنا۔۔قرض نہ لینا۔۔۔قرض سر جھکا دیتا ہے۔۔غیرت ختم کر دیتا ہے۔۔بے وقعت کر دیتا ہے۔۔خودی خوداری اور آبرو ختم کر دیتا ہے۔۔قرض سے فخر موجوداتﷺ نے پناہ مانگی ہے۔۔حکم دیا کہ مردے کو دفن کرنے سے پہلے اس کے ذمے قرض ادا کرو۔۔۔بیٹا زمانہ بدلا۔۔وقت کے تقاضے بدلے۔۔حکومتیں بدلیں۔۔عوام کو سہولتیں مہیا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔۔دکانیں بنیں۔۔اس میں کھاتے بننے لگیں۔۔نقد اور قرض کی تعریفیں کی گئیں۔۔بنک بن گئے اور لوگوں کو اسان اقساط پہ قرضیں مہیا کر نے لگے۔۔بیٹا لوگ اس سے فائیدہ بھی اٹھا نے لگے۔۔قرض لے کے اپنی زمینوں کو آباد کرنے لگے اور وقت پہ قرض ادا کرنے لگے اس میں بنکوں پہ بھی بوجھ نہ تھا۔۔لیکن اس طرح کے قرض لینا ہم جیسوں کی سوچوں سے بھی باہر تھا۔۔لیکن بیٹا ایک عجیب سال ایسا آیا کہ حکومت نے بیغر سوچ سمجھ اور غور و فکر کے سارے قرضوں کی معافی کا اعلان کیا۔۔یہ ایک غیر دانشمندانہ اقدام تھا۔۔اس سے ان امیروں کو فائدہ پہنچا جھنوں نے کروڑوں کا قرض لیا تھا۔۔حکومت کا نقصان ہوا۔۔پھر بیٹا سب کوقرض لینے کی لت پڑ گئی سب نے کہا۔۔ کل حکومت معاف کرے گی۔۔اس خوش فہمی نے مجھ جیسوں کو تباہ و برباد کر دیا۔۔اس کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو تھے۔۔اس نے کہا بیٹا۔۔میرا۔۔ایک بیٹا ہے۔۔لفظ اس کے خلق میں اٹک رہے تھے۔۔بیٹے نے کہا کہ میں کاروبار کروں گا۔۔۔میں نے قرض لیا۔۔اس کو خوش فہمی تھی کہ کل کو معاف ہو جائے گا۔۔۔اس کی لاپرواہی قسطوں پہ قسط چھڑائے اور آج میرے بوڑھے کندھے اس قرض تلے چٹخ گئے ہیں۔۔اللہ بنک والوں کا بھلا کرے کہ مجھے پولیس کے حوالے نہیں کرتے۔۔یہ داستان ناقابل بیان سن کر مجھے بنک والوں،قرض خواہوں اور قرضداروں تینوں پر ترس آیا۔دوہزار پندرہ کے سیلا ب اور زلزلہ نے کے۔پی۔کے۔ میں تباہی مچادی حکومت نے صوبے کو آفت زادہ قرار نہیں دیا۔۔۔قرضدار اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ قرض معاف ہونگے۔۔قسط پہ قسط چھڑتے رہے۔۔قسطیں واپس نہیں ہوئیں۔۔بنک مذید قرض جاری نہ کر سکے۔۔اوپر سے پریشرآیا کہ کم از کم ستر فیصد قرضوں کی واپسی کراؤ مذید پیسہ دیا جائے گا۔۔بنک والے قرضداروں کے ساتھ مذید سختی نہیں کر سکتے۔۔بس ان کی جائیداد کی نیلامی۔۔یہ ایک بڑا لمبا چوڑا پراسس ہے۔۔جس سے بنکوں کو کوئی مذید ادائیگی خواب ہے۔۔اس لئے قرضداروں کے عذاب کے علاوہ بنکوں پہ بڑا بوجھ ہے۔۔ان کے پاس پیسہ نہیں۔۔آگے وہ قرض جاری نہیں کر سکتے۔۔کروڑوں روپے نادہندہ گا ں کے پاس پھنسے ہوئے ہیں۔۔پھر میری سوچوں کا دھارا کہیں دور چلا گیا۔۔سوچا کہ یہ جی حضوری کا دور نہیں۔۔عالم پناہ کے رحم و کرم کا دور نہیں۔۔یہ ایک عظیم جمہوری ملک ہے اور اس جمہوری ملک کا ایک منتخب جمہوری وزیر اعظم ہے۔۔ان کو اپنی قوم کی فلاح عزیز ہے۔۔قوم کی خدمت اس کی پہچان ہے۔۔اس لئے چاہیے کہ وہ کم از کم چترال یسے پسماندہ ضلعے کے لئے ہنگامی بنیاد پر زرعی بنکوں کوپیسے مہیا کرے تاکہ وہ آگے لوگوں کو قرضوں کی سہولیات مہیا کریں۔۔کتنے قرض خواہ قرض لینے کے انتظار میں بھیٹے ہیں۔۔ قسطوں کی مکینزم سخت کی جائے۔۔نادہندہ گاں کا مداوا ہو۔۔مجھے بنک منیجر عظیم شاہ صاحب اور ایم سی او محمد شریف خان صاحب کے استقلال اور کاوشوں کو داد دینا پڑا جو تن دھی سے قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔۔لیکن ان کی طرف سے ان لوگوں کو کون سمجھائے کہ قرض کی ادائیگی کی قوت کسی میں نہ ہو تو قرض اچھی چیز نہیں۔۔یہ نیندیں حرام کر دیتا ہے۔۔قرض لے کے اس کا درست استعمال اور اس سے فائیدہ اٹھانے کی صلاحیت کسی میں نہ ہو تو یہ اس کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔۔یہ میری دھائی بھی ہے کہ ان بنکوں کو پیسے مہیا کی جایئں تا کہ یہ فعال بن سکیں۔۔۔میں نے منیجر صاحب کے دفتر کی طرف ایک بار پھر آنکھ اٹھا کر دیکھا۔۔اور سر جھکا کے وہاں سے روانہ ہوا۔۔میرے پیچھے پیچھے وہ بزرگ بھی روانہ ہوا ہوگا۔۔۔۔ جس کی زندگی واقعی عذاب بن گئی ہے۔۔
تازہ ترین
- ہومداد بیداد ۔۔سر راہ چلتے چلتے ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”یہ ہمارے ہیرے”۔۔محمد جاوید حیات
- ہومچترال کی باشرافت ماحول کو بے شرافتی اور باحیا ماحول کو بے حیائی کی طرف لے جانے کی کوشش کی گئی ہے جوکہ ناقابل برداشت ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سینئر رہنما ؤں کی پریس کانفرنس
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی