چترال کی ترقی۔۔صدقات سے ہنر کی طرف ایک قدم۔۔ تحریر بقلم فصیح الرحمن

Print Friendly, PDF & Email

چترال اپنی خوبصورتی، قدرتی وسائل، اور مہمان نوازی کے لیے مشہور ہے، لیکن یہ علاقہ کئی سماجی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے۔ حالیہ دنوں میں طلحہ محمود صاحب جیسے شخصیات نے یہاں اپنی فلاحی سرگرمیاں جاری رکھی ہیں۔ انتخابی میدان میں ناکامی کے باوجود انہوں نے چترال کے عوام کی خدمت ترک نہیں کی، جو ان کی لگن اور خدمت کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ اس وقت چترال میں دوبارہ موجود ہیں اور عوام کو مختلف فلاحی پیکجز دے رہے ہیں، جو یقیناً ایک قابل تحسین عمل ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صدقات اور خیرات چترال کے مسائل کا حل ہیں؟ صدقات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، یہ معاشرتی مدد اور ضرورت مندوں کی وقتی ضرورت پوری کرنے کے لیے بہترین ذریعہ ہیں۔ لیکن صدقات کی نوعیت وقتی ہے اور یہ مستقل ترقی کے لیے ناکافی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ چترال جیسے علاقے خود کفیل اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہوں، تو ہمیں خیرات کے بجائے ہنر اور روزگار پر توجہ دینی ہوگی۔

چترال کے لوگوں کو ہنر مند بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یہاں جدید فنی تعلیم کے مراکز قائم کیے جائیں جہاں نوجوانوں کو زراعت، دستکاری، آئی ٹی، اور سیاحت جیسے شعبوں میں تربیت دی جا سکے۔ سیاحت چترال کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہے، جہاں مقامی لوگوں کو گائیڈز، ہوٹل مینجمنٹ، اور دیگر شعبوں میں روزگار دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح خواتین کو گھریلو صنعتوں میں شامل کرنے سے نہ صرف ان کے معاشی حالات بہتر ہوں گے بلکہ پورا معاشرہ ترقی کرے گا۔

طلحہ محمود فاؤنڈیشن جیسی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ صدقات کی تقسیم سے آگے بڑھیں اور لوگوں کو ہنر سکھانے، کاروباری تربیت فراہم کرنے، اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دیں۔ یہی اصل فلاحی کام ہے جو چترال کے مستقبل کو روشن بنا سکتا ہے۔ اگر آج ہم اس سمت میں قدم اٹھائیں تو چترال ایک خود کفیل اور ترقی یافتہ علاقہ بن سکتا ہے، جہاں لوگ صدقات کے بجائے اپنے ہاتھوں کی کمائی پر فخر محسوس کریں گے۔