دھڑکنوں کی زبان ۔۔”اکیلاپن کی قسم “۔۔محمد جاویدحیات

Print Friendly, PDF & Email

تنہائی اور اکیلاپن عذاب ہے انسان کی فطرت ہے کہ وہ مل جل کر رہے اس لیے رشتے ناطے،خاندان،شعوب قباٸل،برادری،پھر دوست احباب یہ سب اسی اکیلاپن کو دور کرنے کے لیے تگ و دو ہیں۔انسان حیوان ناطق ہے بات کرکے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔غم غلط کرتا ہے جینے کا حوصلہ حاصل کرتا ہے لیکن معاشرہ ایک بے ربط اجتماع کا نام ہے یہ ایک ہجوم ہیجس کی کوٸی خاص ترتیب نہیں ہوتی بھانت بھانت کے لوگ ہوتے ہیں اور بھانت بھانت کے مزاج۔۔۔۔بہت ساری برائیاں اسی زبان کی وجہ سے پھیلتی ہیں فخر موجودات ص نے اپنی زبان مبارک پکڑ کے فرمایا اس کی حفاظت کی مجھے ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی بشارت دوں۔۔اس تناظر میں اکیلاپن نعمت ہے بندہ بہت ساری برائیوں سے محفوظ ہوتا ہے وہ سب کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ ہوتا ہے اور بہت سارے اس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے محفوظ ہوتے ہیں۔لیکن ایک اور معیار بھی یے کہ بندہ معاشرے کا حصہ بن کے اپنے أپ کو برائیوں سے محفوظ رکھے یہ اصل معیار ہے اس لیے کہ اگر بندہ معاشرے سے کٹے رہے تو برائی سے بچنے کی سعی کیوں کرے اور نیکی کی ترعیب کیا دے۔۔۔آج کا دور بہت ہی خوفناک دور ہے معاشرہ برائیوں سے اٹا پڑا ہے ان سے بچنے کی کوئی صورت نہیں اس لییبندہ تنہائی کو ترسے۔۔کسی زمانے میں یوں نہیں ہوتا تھا۔جس بھی طبقہ فکر سے ملو وہ اپنی سناۓ گا لیکن برا نہیں سناۓ گا۔کوئی سیاسی بندہ اپنی پسند کی سیاست بتاۓ گا اپنی پسند کی لیڈرشب بتاۓ گا اپنے رہنما کی تعریف کرے گا مگر دوسروں کی بالکل تکذیب نہیں کرے گا۔وہ بساط بھر دوسروں کا احترام کرے گا سیاست میں اختلاف راۓ کی گنجائش اور مخالفت کی حد ہوتی تھی مگر اب ایسا نہیں گالیاں وظیفہ ہیں ایک دوسرے کو وہ کچھ سنائیں گے کہ بندہ دل پکڑ کے رہ جاۓ۔۔۔
کسی دکان میں جاو تو کاروبار کی بات نہیں چھیڑی جاۓ گی بس مہنگائی کا رونا رویا جاۓ گا حکومت کو گالیاں بکی جائیں گی۔خود ناجائز منافع اور زخیرہ اندوزی کسی کو نظر نہیں آئے گی۔پولیس سے ملو وہ لاقانونیت کا رونا روۓ گا لیکن یہ نہیں سوچے گا کہ قانون اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اسی کے زریعے اس کا نفاذ ہوتا ہے۔ٹیچر سسٹم اور بچوں کی نالائقی کا رونا روۓ گا اپنا نہیں سوچے گا کہ وہ کتنی محنت کر رہا ہے۔والدین سے ملو وہ اولاد کی بے راہ روی،نافرمانی اور نابکاری کا رونا روئیں گے اپنا نہیں سوچیں گے کہ ان کی تربیت تو والدیں کے ذمے ہے ان کو حلال کھلانا ان کی کردار سازی کرنا والدیں کا کام ہے۔ سب افراتفری کا شکار ہیں اس سمے سب کی عافیت تنہاٸی میں ہے کہ نہ کسی کا سنو نہ کسی کو سناو۔نہ کہیں الجھو نہ کسی کوالجھاو۔تنہائی تب غنیمت بن جاتی ہے۔ تنہائی میں اگر انسان مثبت سوچ کو اپنا شعار بناۓ تو یہ انعام ہے بندہ ایسا چمکتا ہیرا بن جاتا یے کہ اس کی روشنی دوسروں کے لیے چراغ راہ بن جاتی ہے اگر وہ منفی سوچوں میں مبتلا ہوجاۓ تو ہٹلر،موسیلینی،بش،ناتن یاہو اسی کوہ سے جنم لیتے ہیں۔انسانیت کی فلاح مثبت سوچ کی مرہون منت ہے اسلام نے بہی خواہی اور خیر خواہی کو عبادت کہا۔مومن سراپا خیر ہوتا ہے یہ اس کا تعارف ہے۔۔مومن کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہتے ہیں۔اگر معاشرہ ناقابل اصلاح بگڑ جاۓ تو جا کے جنگل میں اکیلا رہنے کو ترجیح دی گٸ ہے۔المیہ یہ ہے کہ معاشرے کے بگاڑ کی ذمہ داری کس کے سر جاتی ہے کوئی اپنا سوچنے کے لیے تیار نہیں ہر ایک اپنے أپ کو بری الزمہ قرار دیتا ہے۔اس لیے کوئی حساس ہو تو وہ تنہائی کو پکارتا ہے حقیقتا انسان کبھی تنہا نہیں ہوتا۔۔۔جبکہ رب ہمہ وقت اس کے ساتھ ہے۔۔
ہو اگر شہر کے قاضی تو گزارش سن لو۔۔۔۔
میں ہوں حساس میری عمر گھٹا دی جاۓ