دھڑکنوں کی زبان ۔۔”ہماری دشمنیان”۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

دوستیاں دشمنیاں آنسانی کیفیات ہیں جب یہ عملی اقدامات پہ آجاتی ہیں تو اثر دیکھاتی ہیں۔یہی معاشرے کی سرگرمیاں بھی ہیں کہ کونسا معاشرہ دشمنیوں پہ قاٸم ہے کونسا دوستیوں پہ پنپپ رہا ہے۔۔فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے معاشرے کا ذکر کرتے ہوۓ حالی فرماتے ہیں۔۔
کہیں پہ مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا
لب جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں۔
اسلام کی دولت سے وہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن گیا۔زندہ قومیں آج بھی اپنی دشمنیاں قوم کی خاطر چھوڑ کر دوستیاں اپناتی ہیں ایک ہم ہیں کہ اپنی انا اور دشمنیوں کی خاطر قوم کو قربان کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔خواہ قوم جاۓ باڑ میں ہماری جھوٹی انا کی تسکین ہونی چاہیے۔سیاسی اختلافات کو معمولی مخاصمت کہا جاتا ہے یہ وقت کے تقاضوں کے ساتھ بدلتے ہیں یہ جڑ نہیں پکڑتیں۔لیکن ہمارے ہاں یہ سب سے خوفناک دشمنیاں ہیں۔۔ہم عوام اپنے بڑھوں کے اختلافات کی آگ میں جل رہے ہیں۔عوام کو کلانعام کہا گیا ہے اور ہٹلر نے کہا تھا کہ عوام کو نعروں سے آسانی سے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ہم مسلسل اس کیفیت میں مبتلا ہیں۔ہم یا تو دھرنوں،جلسوں جلوسوں میں ہوتے ہیں یا اپنوں کو بیوقوف بنانے کی منصوبہ بندی میں ہوتے ہیں۔ ہماری سیاسی اختلافات دشمنیوں میں بدل گٸ ہیں ان کا انجام کیا ہوگا پتہ نہیں۔ہماری سیاسی وابستگیوں،عقیدتوں اور محبتوں کا بھی پتہ نہیں ہم کس سے کس بنیاد پر عقیدت رکھتے ہیں کیونکر محبت کرتے ہیں یہ بھی کسی کو پتہ نہیں تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں سے سوال کیا جاۓ کہ دس دس بارہ بارہ سالوں سیتبدیلیاں کیوں نہیں آتیں تو وہ گردن مارنے کو تیار ہوجاٸیں گے۔جو حاکم اپنی قوم کے لیے قرض لینے کو اپنی اہم کامیابی سمجھے اس سے عقیدت رکھنے والے اس پہ فخر کریں گے۔عدالت عدل سے نکلا ہے وہ کمرہ جہاں انصاف کے فیصلے ہوتے ہیں۔انصاف کی اپنی بنیاد ہوتی ہے یہ کسی کی مرضی کا تابع نہیں ہوتا۔۔ان کو کیوں کر اپنی مرضی سے چلایا جاۓ اگر یہ سوال کسی سے پوچھا جاۓ تو عقیدت رکھنے والے گردن مارنے کو تیار ہوجاٸیںگے۔ اگر خدا نخواستہ قران حدیث کی بات کی جاۓ تو تمہیں لکیر کا فقیر کہہ کر تمہاری تحقیر کی جائیگی۔کسی محکمے کے ذمہ دار سے کوٸی بات نہ کی جاۓ اگر کی جاۓ تو تیری شامت آۓ گی۔ہماری طرز سیاست نے ہمارا گلا گھونٹ دیا ہے۔بڑوں کی پہچان لوٹیرا ہونا ہے ان سے پوچھنے کے لیے نہ کوٸی میزان ہے نہ عدالت ہے۔نہ کوٸی معیار ہے نہ طریقہ ہے۔کل جس کو لوٹیرا کہا جارہا تھا وہ اج کا حکمران ہے اور آج جس کو لوٹیرا کہا جارہا ہے وہ کل کا حکمران ہوگا۔ایک دوسرے کو یہ خطاب دینے والے بھی وہی ہو ں گے۔انھوں نے ہمارے گھروں کو اپنی کالی اور گندھی سیاست سے نفرتوں سے بھر دیا ہے۔بیٹا باپ سے لڑ رہا ہے بھاٸ بھاٸی سے لڑ رہا ہے۔عوام کی خوشحالی ان حکمرانوں کا مطمع نظر نہیں۔مہینگاٸ، بے روزگاری،بد عنوانی حد سے تجاوز کر گٸ ہے۔اقربا پروری اور رشوت کو کوٸ جرم ہی نہیں سمجھتا۔قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کو صلاحیت کہا جاتا ہے۔منصوبہ بندی کوٸی نہیں أگے کی فکر کوٸ نہیں۔ہر محکمہ اپنا معیار کھو رہا ہے یہاں تک کہ تعلیم و تربیت میں چوری ہورہی ہے۔امتحان کے نتاٸج چراۓ جاتے ہیں۔اس سمے دوستیاں کہاں جنم لیں گی دشمنیاں ہی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاٸیں گی۔وہ باصلاحیت غریب بچہ جس کی صلاحیت کا خون ہوا ہو وہ کس طرح کسی کو معاف کر سکتا ہے۔ہماری قومی ساکھ أہستہ اہستہ ٹوٹ رہی ہے۔ہماری دشمنیوں نے ہمیں کھوکھلا کر دیا ہے۔ہم بھول گۓ ہیں کہ ہم کبھی ایک تھے ہم بھول گئے ہیں کہ ہمارا معیار کبھی محبت ہوتا تھا۔ہم کسی مرحلے پر ایک دوسرے کو گلے لگاتے تھے۔ہمارا نعرہ اور نصب العین ایک تھا۔ہماری قومی مفاد ہوتی تھی جن میں ہماری ذات مل جاتی تھی۔۔ہم ایک کارواں تھے اب ہم دشمنیوں کو مہمیز دے رہے ہیں۔جس پارٹی کا کارکن دوسری پارٹی کو زیادہ ذلیل کرے گا وہ اس پارٹی کا ہیرو ہوگا۔اب پارٹیوں کا آپس میں مقابلہ گالیوں،نفرتوں اور دشمنیوں کاہے۔حکومت نے دانشمندانہ فیصلہ کیاہے کہ انٹرنیٹ کی رفتار کو ہی ختم کیا جائے کوٸی رابطہ نہ رہے یہاں تک کہ سڑکیں ہی اکھاڑی جاٸیں تاکہ قوم پیدل سفر کرے ان کو ایک دوسرے سے باخبر ہونے میں مہینوں لگ جاٸیں۔یہ ہماری دشمنیوں کا شاخسانہ ہیں کہ قوم پھر پتھر کے زمانے میں پہنچ جاۓ لیکن ان کی آنا کو تسکین ہو۔پھر ہم کہتے ہیں ہم قوم ہیں ہم ترقی کریں گے۔دنیا 7G لانچ کرہی ہے۔Apple کمپنی کے نئے نئے ورژن آرہے ہیں مگر ہم نیٹ کی رفتار سلو کر رہے ہیں۔۔ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں البتہ یہ کہ ہم ترقی کرنے کیاہل نہیں ہیں ہمیں پھر غاروں کی طرف لوٹنا ہے