داد بیداد ۔۔۔ ڈاکٹر عنایت ا للہ فیضی۔۔۔۔ صوبیدار محمد ایاز خان

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔۔ ڈاکٹر عنایت ا للہ فیضی۔۔۔۔ صوبیدار محمد ایاز خان
خیبر پختونوا میں خوش باش اور خوش پوش ہونے کی شہرت رکھنے والا زندہ دل بوڑھا زندگی کے 81 برس جینے کے بعد چل بسے تو ذہن کی اسکرین پر فیض کا شعر جلی حروف میں نمودار ہوا
کرو کج جبیں پہ سر کفن، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانک پن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
صوبیدار محمد ایاز خان مرحوم نے زندگی بھر دکھ سکھ میں، غم اور راحت میں کبھی اجلیکپڑوں کی استری پر کبھی شکن آنے نہیں دیا۔ کبھی سفید چترالی ٹوپی پر لگے مرغِ زرین کے پروں کی چمک دھمک میں کمی آنے نہیں دی۔ کبھی دوست اور دشمن نے ان کے جوتوں پر راستے کی دھول اور گرد بیٹھتے نہیں دیکھا۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا مگر ان کا ٹھاٹھ باٹ شاہانہ رہا۔ وہ جیب کا فقیر اور دل کا غنی تھا۔ نفسیاتی لحاظ سے اس قسم کا امتزاج کم دیکھنے میں آتا ہے۔ 1942میں انہوں نے ریاستِ چترال کے بااثر اور متمول خاندان میں ریاستی باڈی گارڈ کے صوبیدار محمود خان کے گھر میں آنکھ کھولی۔ ان کے آباو اجداد تورکھو کے علاقے کھوت سے ترکِ وطن کرکے ریاستی دارالخلافہ آئے اور ریاستی حکمران نے اس خاندان کو شاہی قلعے کے قریب قریہ زرگران میں جاگیر دیدی۔ قلعے میں انہیں دیوان بیگی کے عہدے پر مامور کیا۔ دادا فیروز اور پڑدادا ہزارہ بیگ ریاستی حکمران کے دیوان بیگی تھے۔ محمود خان کو ریاستی باڈی گارڈ میں صوبیدار کا عہدہ دیا گیا۔ وہ وجیہہ صورت اور بلند قامت کے مالک تھے۔ حکمران کے ایڈ ڈیکانگ مقرر ہوئے۔ زری زربفت کی خوبصورت وردی ان پر خوب سجتی تھی۔ باذوق بھی بہت تھے۔ بیٹا پیدا ہوا تو کہا محمود کا بیٹا ہے اس کا نام ایاز ہوگا۔ یوں گھر کے اندر ہی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔
محمد ایاز خان نے نازو نعم میں پرورش پائی۔ سپہ گری، شکار اور گھڑسواری ان کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ ان کے والد گرامی استور غاڑ یعنی چوگان یا پولو کے نامور کھلاڑی تھے۔ اصطبل میں بہترین نسل کے گھوڑے ہوا کرتے تھے۔ 18 سال کی عمر میں ہی محمد ایاز خان نے نامور کھلاڑیوں کی صف میں کھڑے ہوکر پولو اسٹک اٹھائی، گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا اور پولو کھیلا۔ پھر زندگی بھر یہ کھیل ان کا مشغلہ بن گیا۔ 2009 میں اپنا آخری میچ کھیلا تو اس عمر میں بھی جوانوں کی طرح پھرتی اور چابک دستی سے کھیلتے تھے۔ صوبیدار محبوب عالم خان کی وفات کے بعد ان کو چترال کے کھیلاڑیوں کا پولو کوچ مقرر کیا گیا۔ انگریزوں نے پولو میں ہاکی اور فٹ بال کے طرز پر قوانین مقرر کیے مگر چترال اور گلگت بلتستان میں پولو چنگیز خان، سلطان قطب الدین ایبک اور شہنشا جلال الدین اکبر کے اسٹائل میں کھیلا جاتا ہے۔ اس میں ریفری نہیں ہوتا، سیٹی نہیں ہوتی۔ گھوڑا دوڑاؤ، طاقت دیکھاؤ، بال اٹھاؤ، سوار گرے یا گھوڑا، اس کی قطعاً پروا نہ کرو۔ شاعر نے اسی لیے کہا ہے،
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے۔۔۔
چترال اور گلگت بلتستان کے پولو کے لیے جدید اصطلاح میں فری اسٹائل پولو کا نام استعمال ہوتا ہے۔ اس میں کھلاڑی کو چنگیز خان سے زیادہ پھرتی دیکھانی ہوتی ہے۔ صوبیدار ایاز خان اس فن کے نمایاں کھلاڑیوں کی صف میں شامل تھے۔ اس لیے آپ کو 1965 میں پیرا ملٹری فورس چترال اسکاؤٹس میں بھرتی کیا گیا۔ چترال اسکاؤٹس میں آپ کا فن مزید نکھر کر سامنے آیا۔ آپ نے فورس کی نمائندگی کرتے ہوئے خیبر، وزیرستان اور ٹانک میں جاکر پولو کھیلا اور چترال کی نمائندگی کرتے ہوئے شندور، پھنڈر، گلگت، پشاور، لاہور اور کراچی میں پولو کھیلا۔ چترال اور گلگت بلتستان میں انہیں پولو کے جن نامور کھیلاڑیوں کے ہمراہ میدان میں اترنے کا موقع ملا ان میں حیدر قلی خان، وزیر احمد، روزگار علی شاہ، مظفر علی خان، سردار علی خان، سرور لال، انوار الملک، سید جان بادشاہ، سید عبدالودود، قاضی نظامی، صوبیدار میجر حکیم سرور، صوبیدار میجر ظفر علی شاہ، صوبیدار میجر مقبول علی، راجی رحمت، غلام عباس، ارسطو، بلبل جان، شہزادہ سکندر الملک، ناصر احمد اور پہلوان بہادر شامل ہیں۔ صوبیدار میجر ظفر علی شاہ ان کا ہم عمر ہے۔ صوبیدار محمد ایاز خان کے تینوں بیٹے پولوں کھیلتے ہیں۔ ان کا فن اگلی نسل کو منتقل ہوگیا ہے۔
جب بھی کوئی نوجوان گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے دائیں بائیں جانب جھومتے ہوئے نظر آئے گا، تماشائی صوبیدار آیاز خان کے اسٹائل کو یاد کریں گے۔ شاعر نے ایسے ہی لوگوں کو یہ کہہ کر دعا دی ہے،
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا