دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔ ”شاید وہاں یوں نہیں ہوتا؟“

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔ ”شاید وہاں یوں نہیں ہوتا؟“
ہماری نجی زندگیاں ہیں۔ ہم عام کی جمع ”عوام“ ہیں۔ہم میں سے اکثر ان پڑھ ہیں جو روٹی روزی کے ل? ریڑھی لگاتے ہیں چپس، بھنے ہو? جوار کے سٹے، گنڈارے، چاکلیٹ تھالیوں میں کندھوں پہ اٹھا? اڈوں، بازاروں، کھیل کے میدانوں میں پھرتے رہتے ہیں۔کوئی چپڑاسی ہیں۔۔ افس بوا?ی ہیں۔۔ ہمیں بڑوں کے کاموں کا کیا پتہ؟۔۔اگر تھوڑی سی زندگی قابل عمل ہے تو پھر سرکاری سکولوں میں جاتے ہیں وہاں ہمیں تاریخ پڑھا?ی جاتی ہے۔۔قربانیوں کا ذکر ہوتا ہے نظریات اور نصب العین کا تذکیرہ ہوتا ہے بلکہ ہم سے رٹ لگا کے زبانی یاد کرایا جاتا یے۔ وہ ہمارے بڑے وہ افسانوی لوگ۔۔انھوں نے نعرہ لگایا تھا ”پاکستان کا مطلب کیا لاء الہ اللہ“ اس کا دین و مذہب کیا ”محمد الرسول اللہ ص“۔وہ ہمارے اسلاف نے انصاف کا، امن کا نعرہ لگایا تھا۔۔پھر پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔پاکستان میں بندرگاہ ہیں۔۔ہمارے جنگلات، موسم، پھل میوے، کارخانے۔۔۔فلاحی ریاست۔۔ہمارے پہاڑ۔۔قومی زبان۔۔۔قومی پھل، قومی پرندہ، قومی کھیل۔۔۔سال میں چار موسم۔۔پھر اسلامی جمہوری ملک۔۔۔پھر ملک خداداد۔۔پھر آ?ین قانون۔۔۔دارالعدل کی شاندار عمارتیں۔۔۔ان کے اندر کالی شیروانیوں میں ملبوس قانون کے بڑے بڑے ڈگری والے۔۔پھر محافظ سرفروش۔۔۔پھر پاسبان۔۔۔جان نثار۔۔اور محکمے ان کے اندر لاکھوں کارندے۔۔۔۔سب کا بظاہر مقصد اس سر زمین کی ترقی و خوشحالی۔۔ ہم”عوام“ نے یہ افسانے رٹ لگا کے زبانی یاد کی ہے۔ہمارے ہاں ان کے قابل عمل ہونے کا تصور نہیں ہے۔یہ سب ہماری پہنچ سے دورہ ہیں۔ہمارے پاس زرعی زمین ہوتی تو ہم سمجھتے کہ واقعی پاکستان زرعی ملک ہے۔ ہم بڑے پڑھے لکھے ہوتے کو?ی ذمہ دار آفیسر ہوتے تو ہمیں محکموں کا پتہ ہوتا۔۔ہم سیاستدان ہوتے تو ہمیں گر آتا کہ جا?دادیں کیسے بناتے ہیں۔ ہمیں ان کا اندازہ نہیں۔۔یہ دوسرے لوگ ہیں جن کو اس ریاست کی بدولت یہ سب نعمتیں میسر ہیں لیکن ان کی صبحوں،شاموں اور راتوں کا بھی ہمیں پتہ نہیں۔۔ہم دسویں جماعت پاس کرکے بھی بس ان پڑھ ہی رہتے ہیں ہمیں کتابوں میں یہ سب رٹ رٹا کر زبانی یاد کرایا جاتا ہے۔۔ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے کہ ہم صبح مسجد جاتے ہیں نماز میں اس سر زمین کی خوشحالی اور ترقی کے ل? سر بہ سجود ہوتے ہیں ہمیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ سیاست کیا ہوتی ہے سیاسی بکھیڑے، چالبازیاں، ترجیحات، وفاداریاں، جد و جہد کیا ہوتی ہے۔ہمارے ذہنوں میں یہاں کی گلی کوچے ہوتے ہیں۔ہماری آنکھوں کے سامنے ان ہنستے مسکراتے بچوں کے شگفتہ چہرے ہوتے ہیں۔ہماری مسکراہٹیں ان غریبوں کی روزی روٹی سے وابستہ ہوتی ہیں۔۔ہم مسجدوں سینکلتے ہیں ہمارے پاس گھر نہیں جھونپڑیاں ہوتی ہیں ہمارے کو?ی ڈرا?نگ روم نہیں ہوتے۔ہمارے ناشتے کی ٹیبل نہیں ہوتی۔ہمارے باورچی خانوں میں کالی چا? کے ساتھ روکھی سوکھی ہوتی ہے۔ہمیں اپنی دیہاڑی اور ریڑھی کا غم ہوتا ہے۔ہمارے ہاں بس اس چھوٹی سی زندگی کے ساتھ اس ملک کی خوشحالی کا غم ہوتا ہے۔اس کے اندر ترقی اور امن کا غم ہوتا ہے ہمارے پاس جو رٹا? ہو? سبق ہیں ان کا عملی مظاہرہ دیکھنے کی ارزو ہوتی ہے۔جب کبھی تیز بارشیں ہوتی ہیں تو ہم رو رو کر پناہ مانگتے ہیں۔سردیاں ہمیں ستاتی ہیں گرمیوں میں ہم بیگھر بیدر ہوتے ہیں سیلاب ہمیں بہا کر لے جاتا ہے بارش چھت گراتی ہے۔زلزلے دیواریں ڈھاتے ہیں ہمیں ان کا غم ہے لیکن ہم اس سر زمین پہ سر بہ سجود ہیں۔
ہمارے ہاں ایک خواب جاگتا ہے اس کی تعبیر نہیں ہوتی لیکن ان چمکتی گاڑیوں میں پھرنے والوں، قیمتی ہوٹلوں میں کھانا کھانے والوں، ان سلوٹ ریسیو کرنے والوں،ان ٹریٹ لینے اور دینے والوں،ان بچوں کے کھیلونوں پر لاکھوں خرچ کرنے والوں، ان بنک بیلنس اور جا?دادیں بنانے والوں، ان اقتدار کے بھوکوں، ان کرسی کے عاشقوں کے ہاں کیا ہوتا ہے ہمیں نہیں پتہ۔۔اس سر زمین نے ان کو جو مقام عطا کیا ہے کیا انہیں اس کا احساس ہے۔کیا یہ پاکستان کا نیک سوچتے ہیں کیا یہ بھی اس کے ل? اللہ کے حضور دعا?یں اور التجا?یں کرتے ہیں کہ اللہ اس سر زمین کو ترقی و خوشحالی عطا کرے۔کیا یہ سوچتے ہیں کہ اس کی گلیوں میں امن کی ہوا چلے۔۔کیا ان کے ہاں یہ خیال پنپتا ہے کہ جو کچھ وہ کھاتے ہیں اس ملک کا ہر باشندہ وہی کچھ کھا? جو کچھ وہ پہنتے ہیں اس ملک کا ہر باشندہ وہی کچھ پہنے۔ان کے بچوں کو جو سہولیات میسر ہیں سب کو میسر ہوں۔کیا ان کے ہاں کسی کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کا تصور ہے۔کیا ان کے ہاں دکھ درد میں شریک ہونے اور غم غلط کرنے کا حس موجود ہے۔کیا ان کے ہاں محبت کو رواج دینے ایک دوسرے کا احترام کرنے اپنی کوتا?یاں تسلیم کرنے کی جرات ہے۔۔ہاں البتہ اتنا اندازہ ہے کہ اگر ان کے ہاں یہ سب کچھ ہوتا تو ارض پاک جنت کا ٹکڑا بن جاتا۔۔۔