داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔لگا م کی کہا نی

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔لگا م کی کہا نی

سابقہ اور مو جو دہ حکمرا نوں میں سے جس کسی کا انٹر ویو آتا ہے یا بیان آتا ہے اس میں اس با ت کا رونا رویا جا تا ہے کہ لگا م کسی اور ہاتھ میں ہو تو بند ہ کچھ نہیں کر سکتا جب بھی ایسی بات سننے کو ملتی ہے مجھے افغا نستا ن کے نا مور باد شاہ نادر شاہ درانی کے ہا تھوں دہلی کا سقوط یا د آتا ہے اس تا ریخی واقعے سے کئی باتیں وابستہ ہیں ”شامت اعمال ماصورت نا در گرفت“ یعنی ہمارے برے اعمال کا نتیجہ یہ ہوا کہ نا در شاہ نے آکر تبا ہی مچا ئی یہ بھی مشہور ہے کہ جب ہند وستا ن کے عیا ش مغل باد شاہ محمد شاہ رنگیلا کو قید کر کے ان کے سامنے لا یا گیا تو نا در شاہ نے ان سے پو چھا تمہارا کیا نا م ہے اُس نے کہا احمد شاہ شہنشاہ ہندوستان پھر اُس نے باپ دادا کے نا م ظہیر الدین با بر تک گن گن کر بتا یا اپنا پورہ قابل فخر شجرہ نسب سنا نے کے بعد اُس نے نا در شاہ سے پو چھا اب بتاؤ تم کو ن ہو، تمہار ے باپ دادا کون تھے؟ نا در شاہ نے کہا ”شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر“ میرا شجرہ نسب یہ ہے کہ میں بھی تلوار ہوں میرے اباو اجداد بھی تلوار کی دھا ر ہی تھے میرا کوئی دوسرا شجرہ نہیں، جو حکومت تم نے عیا شی کی وجہ سے کھوئی ہے میں نے تلوار کے ذریعے حا صل کی ہے اور سنا ؤ کیا حال ہے؟ یہاں میں نا در شاہ کے جس واقعے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ دہلی کو تاراج کر نے کے بعد نا در شاہ نے ایک دن ہاتھی کی سواری سے لطف اندوز ہو نے کی خواہش کی محمد شاہ رنگیلا کا مشہور ہا تھی لا یا گیا، مہاوت نے سیڑھی لگا کر نا در شاہ کو ہاتھی پر سوار کیا، سوار ہو نے کے بعد نا در شاہ نے مہا وت سے کہا لگا م میرے ہاتھ میں دیدو عنا نش بدہ، مہا وت نے کہا اس کی لگا م سوار کے ہا تھ میں نہیں دی جاتی، نا در شا ہ نے کہا سیڑھی لے آؤ، مجھے نیچے اتارو، جس سواری کی لگا م سوار کے ہا تھ نہ ہو اُس پر سواری کرنا عقلمند وں کا کام نہیں، ”مر کیے کہ عنا نش بدست غیر با شد، سواری را نشا ید“ ہمارے سابقہ اور مو جو دہ حکمر انوں کی دیگر تمام عادتیں نا در شاہ درانی سے ملتی جلتی ہیں مگر با گ ڈور کو سنبھا لنے کی خواہش ان میں نہیں پا ئی جا تی، با گ ڈور نہ ملنے کی صورت میں سیڑھی منگواکر سواری سے اتر نے والی عقلمندی ان کی قسمت میں نہیں آئی یہی اس ملک اور قوم کا المیہ ہے حکومت میں آنے کا مطلب اختیار اپنے ہا تھ میں لینا ہے اگر اختیار نہیں ملتا تو حکومت لینے کا کیا مطلب ہوا؟ یہ تو میر تقی میر کو ملنے والی زندگی ہوئی ہم مجبوروں پہ نا حق تہمت ہے مختاری کی جو چا ہے سو آپ کرے ہے ہم کو عبث بد نا م کیا نا در شاہ درانی نے لگام دینے سے انکار پر مہا وت سے یہ نہیں پو چھا کہ تم کون ہو؟ ملکی ہو یا غیر ملکی؟ تم نے ہا تھی پر سوار کرکے مجھ پر کوئی احسان کیا ہے یا تم نے مجھے کوئی قرض دیا ہے یا میں نے تمہارے ساتھ وفاداری اور تا بعداری کا کوئی شرمنا ک معاہدہ کیا ہے؟ نا در شاہ درانی نے جب دیکھا کہ ہا تھی پر سواری کے بعد لگا م کسی اور کے ہا تھ میں ہو گی تو اُس نے مزید کسی ردّو کد یا سوال و جواب کے بغیر سیڑھی منگوائی اور ابرو مندانہ طریقے سے نیچے اترا، یوں انہوں نے اپنی عزت بھی بچا ئی اپنی قوم کی عزت بھی بچا ئی جب میں ما ضی اور حال کے پا کستانی حکمرا نوں کے بیا نا ت پڑھتا ہوں تو آنے والے حکمرانوں پر مجھے ترس آتا ہے شاعر نے ایک بات کہی تھی ایک ہم ہیں ہوئے ایسے پیشماں کہ بس، ایک وہ ہیں جنہیں چاہ کے ارمان ہونگے مستقبل میں جن سادہ لو ح لو گوں کو حکومت میں آنے کی تمنا ہے وہ پہلے ہی تین با توں کا تہیہ کر لیں کہ کا بینہ اپنی مر ضی سے بنا ئینگے کسی اور سے ڈکٹیشن نہیں لینگے، بجلی، گیس، تیل اور آٹا، دال وغیرہ کی قیمتیں خود مقرر کر ینگے کسی اور کی مر ضی سے قیمتوں میں اتار چڑھا ؤ نہیں کرینگے، تیسری اور سب سے آسان بات یہ ہے کہ ہمسا یوں سے تعلقات اور دور یا نزدیک کے ملکوں کے ساتھ دوستی اور تجا رت اپنی مر ضی سے کرینگے سات سمندر پا ر سے آنے والے احکا مات کے تحت نہیں ایسا نہ ہوا تو میر تقی میر کے شب و روز والا معا ملہ ہو گا ؎
ہم کو یا ں کے سپیدو سیہ میں جو دخل ہے سوا تنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا، یا دن کو جوں توں شا م کیا