داد بیداد ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔محمد سیر کا صو فیا نہ کلا م
انڈی پنڈنٹ اردو میں مرزا محمد سیر کی صو فیا نہ شا عری پر سید اولا د شاہ صاحب کا ایک کا لم شا ئع ہوا کا لم کو انواز نیوز نے اپنے تبصرے کے ساتھ شائع کیا تو ایک بحث چھڑ گئی کہ محمدسیر صوفی تھے یا نہیں اگر وہ صوفی شا عر تھے تو ان کا صو فیا نہ کلام کدھر ہے؟ کیا یور من ہمین صو فیا نہ کلا ہے بعض دوستوں نے یہ بھی لکھا کہ سیر کا کلا م تو عشق و رومان سے متعلق ہے اس میں تصو ف کہاں سے آٹپکا؟ اس طرح کے تبصروں کا الگ الگ جوا ب بھی دیا گیا تا ہم اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ نئی نسل کی معلومات میں اضا فہ کرنے کے لئے اس پر تھوڑی سی مزید روشنی ڈالی جا ئے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ عشق اور تصوف میں کوئی تضا د نہیں سعدی شیرازی اور خواجہ حا فظ سے لیکر اردو کے خواجہ میر درد تک تما م شعرا میں عشق مجا زی اور عشق حقیقی کی مختلف منزلیں ہیں ان منزلوں کو ملا کر تصوف کہا جا تا ہے شا ہ لطیف، بلھے شاہ، خواجہ فرید اور رحمن بابا کا جو کلا م گا یا جاتا ہے وہ بھی عشق اور تصوف پر مبنی ہے، مشہور نقاد پرو فیسر فتح محمد ملک نے غلا م عمر کی تصنیف با با سیر پر تبصرہ کر تے ہوئے اپنے انگریزی مضمون میں با با سیر کو وسط ایشیائی صو فیاء اور جنو بی ایشیا ئی صو فیا ء کے افکار کا حسین سنگم (Convergence) قرار دیا ہے مستنصر حسین تارڑ نے بابا سیر کو شیخ علی ہجویری ؒ کا ہم پلہ قرار دیا ہے با باسیر کے مسودے پر نظر ثا نی کرنے کے بعد پرو فیسر رضا ہمدانی نے لکھا ہے کہ با با سیر کی ایک غزل کا یہ مقطع فارسی اور اردو میں تصوف کے پورے ادبی ذخیرہ میں نہیں ملے گا
مستانہ ام سیر چو کشادم لب از عدم
ما در بجا ئے شیر بکا مم شراب ریخت
سیر نے جب آنکھ کھولی اور ہونٹ ہلا یا تو مست ہوا میر ی ماں نے گُھٹی میں دودھ کی جگہ تیرے عشق کا شراب مجھے پلا یا تھا شاعر روز ازل کے سوال کیا میں تمہا را رب نہیں ہوں؟ اور سوال کا جواب ہاں تم ہی ہمار ارب ہو، یعنی وعدہ الست کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عشق حقیقی میری روح کے اقرار میں شا مل ہے
درتشنگی گر ہزار بمیر م سیر
لب تہ زمنت آبِ گہر می کتم
سیر پیاس کی شدت سے ہزار بار مروں تب بھی مو تی کی چمک سے اپنے ہونٹوں کو نم نہیں کرونگا یہ صو فیا ء کے ہاں فنا اور بقا کی منز لوں میں محبوب کے وصال کا تصور ہے جسے سیر نے بیدل کے انداز میں بیان کیا ہے بابا سیر کا فارسی کلا م اس طرح کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ”یور من ہمیں“ کے اندر کھوار کلا م میں بھی تصوف کی نما یاں مثا لیں ہیں ؎
کورہ کورو برون شیؤ نیان کورہ زوموریژ بار یکی یرے
کورہ کوو درے مہ ما ریس مہ لوانو باک شریکی یرے
کہیں لہلہا تے سبزہ زار ہیں کہیں پہاڑ کا باریک راستہ ہے اے میرے خود سر ہمدم تم مجھے کسی خندق میں گرا کر ہلا ک کردو گے شاعر نے دنیا کی لذتوں کو لہلہا تے سبزہ زار سے تشبیہہ دی ہے شریعت، طریقت اور حقیقت کے راستے کو پہاڑ کی باریک پگڈنڈی سے تشبیہہ دیکر نفس امارہ کو خبردار کیا ہے کہ دنیا کی لذتوں میں مبتلا کر کے تم مجھے ہلا کت میں ڈالو گے شریعت، طریقت اور حقیقت کے راستے پر میرے قدم ڈگمگا جا ئینگے نفس امارہ کے لئے ”لوا نو باک شریکی“ بہت خو ب صورت نا م ہے ؎
زومو سورین بغا تم پیچ قو نو سورین بغا تم یرے
زروخ زروخ کیڑا و بغا تم، اشروان مژاؤ بغا تم یرے
زوموسور شوگرام کی خشک پہاڑی ہے جو ریشن کے سامنے ہے شاعر نے اس پہاڑی پر دھوپ میں ننگے پاوں چلنے کی مثال دیکر اپنے دل کی وہ کیفیت بیان کی ہے جس میں عاشق عشق کی آگ میں جلتا ہوا محسوس ہوتا ہے عاشق کی بے تا بی کو بیان کر نے کے لئے زارو قطار رونے اور آنسو وں کو بار بار پونچھنے کی کیفیت کا اظہار کیا ہے اصطلا ع میں اس کو محا کات کہتے ہیں اور یہ حال صو فی شعرا کے ہاں بہت ملتا ہے ؎
کورے نین کوری بغائے مرزامہ سیر ولوڑور یرے
سما گہت دیتی شیر ٹھو نہ مہ ستھار رو لو ڑور یرے
مرزا محمد سیر کو دیکھو کہاں سے کہاں نکل گیا میرے ستھا ر کو دیکھو جس کے تار گرد آلود ہو چکے ہیں وزن کی درستگی کے لئے محمد سیر کو مہ سیر بنا دیا اور تار (سم) کے لئے سما کا لفظ استعمال کیا ستھار کو عشق مجا زی سے عشق حقیقی کی طرف سفر کا استعارہ بنا کر پیش کیا ہے ؎
چاغڑئیے چاغ مو کورے یار خو نو دار بانہ اسوم یرے
سو ر خون استور مہ موڑا پونگ لکھی اڑ غا نہ اسوم یرے
شاعر چتلے کو ے کو مخا طب کرکے کہتا ہے کہ مجھے ملا مت نہ کر میں سر حد پار کرنے والا ہوں یہ یار خون کا دار بند ہے میں سفید گھوڑے پر سوار ہوں اور میرے پاوں رکا ب میں ہیں گویا شاعر عشق مجازی کا سفر طے کر کے عشق حقیقی کی سر حد پر آیا ہے اب منزل کو پا نے والا ہے ظا ہر بین لو گ اس کو ملا مت کر تے ہیں حالانکہ وہ محبوب حقیقی کی قر بت حا صل کرنے کا متمنی ہے یہی بات خوا جہ میر در د نے سادہ زبان میں یوں کہی ہے ؎
تر دامنی پہ ہمار ی شیخ نہ جا ئیو
دامن نچوڑ دیں تو فر شتے وضو کریں