داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔عبد اللہ جا ن مر حوم
عبدا للہ جا ن مر حوم کی کہا نی ایک ایسے سیا سی کا رکن کی کہا نی ہے جس نے وطن عزیز کے اندر دولت، قومیت، قبیلے اور کسی دوسرے سہا رے کو استعمال کئے بغیر سیا ست میں نا م پیدا کیا، اپنے نا م کے ساتھ سیا ست کی بھی لا ج رکھ لی اور سیا سی کا ر کنوں کے سامنے ایک نمو نہ پیش کر کے ثا بت کیا کہ اخلا ص، محنت، لگن اور ایمانداری سے آگے بڑھنے والا پا کستان کی تعفن زدہ سیا سی فضا میں بھی نیک نا می اور کا میا بی کما سکتا ہے عبد اللہ جا ن 1934ء میں اپر چترال کی تحصیل مو ڑکھو کے مر دم خیز گاوں مور دیر میں پیدا ہوئے آپ کے والد گلہ جا ن دیہا تی زمیند ار اور صو فی تھے ابتدائی تعلیم اُس وقت کے دستور کے مطا بق قرآن نا ظرہ، سے شروع کی پھر گلستان، بوستان اور دیگر فارسی کتب میں دسترس بہم پہنچا ئی انیگلو ورنیکلر سکول سے اردو، ریا ضی، مطا لعہ قدرت اور دیگر کتابوں کا علم حا صل کیا، کم عمری میں وطن ما لو ف سے مسافرت اختیار کی مختلف مقا مات سے ہوتے ہوئے کو ہاٹ پہنچے جہاں ڈینٹل سر جن محمد حنیف کے سامنے زانو ے تلمذ تہہ کر کے دندان سازی کی باقاعدہ تر بیت حا صل کی ڈاکٹر محمد حنیف مرحوم جما عت اسلا می پا کستان کے رکن تھے ان کی صحبت میں مو لا نا ابو لاعلیٰ مودودی ؒ کا لٹر یچر آپ کے مطا لعے میں آیا، مقا می حلقہ جما عت کی سر گر میوں میں حصہ لینے کا موقع ملا، اعلا ئے کلمتہ الحق کے لئے اس ما حول میں آپ کی ذہن سازی ہوئی اور آگے جا کر آپ نے جماعت اسلا می ضلع چترال کے پہلے امیر منتخب ہونے کا اعزاز حا صل کیا 1969سے پہلے چترال ایک ریا ست تھی پو لیٹکل ایجنسی کا نظام تھا، فرنٹیر کرائمز ریگو لیشن (FCR) کے قوانین تھے 1969میں چترال کی ریا ست کو صو بے میں ضم کر کے ملا کنڈ ڈویژن کا ضلع بنا یا گیا تو سیا سی آزادی کا دور آیا درس قرآن، درس حدیث، شب بیداری اور دیگر سر گر میوں کو خفیہ رکھنے کی ضرورت ختم ہوئی مو لا نا مو دودی ؒ کے رسائل، جرائد اور جماعت اسلا می کی کتا بیں خفیہ رکھنے کی ضرورت نہیں رہی، ریا ست کے اندر جما عت کے ابتدائی کا رکنوں میں سے شہزادہ افضل ولی، حا جی خا ن، درانی خا ن، محمد اشرف خان خلجی، مو لا نا عبدا لروف، فیض اللہ خان، غلا م مصطفی، سراج الدین، شکور رفیع، حیدر علی خان اور دیگر احباب کے مشورے سے باقاعدہ نظم قائم ہوئی، اجتماع ارکان میں عبد اللہ جا ن کو امیر منتخب کیا گیا، 1970ء کے عام انتخا بات میں آپ کو قومی اسمبلی کے لئے جماعت کا ٹکٹ دیا گیا جو ضلع کے اندر توسیع دعوت کا ذریعہ بن گیا، اور یہیں سے عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جا ن منزل کی طرف چل پڑا اتا لیق بازار میں عبد اللہ جا ن صاحب کے کلینک سے متصل دکان کرایے پر لیکر دار المطا لعہ قائم کیا گیا یہ باقاعدہ لائبریری تھی جہاں نوائے وقت، جنگ، مشرق، ندائے ملت، بانگ حرم اور دیگر اخبارات کے ساتھ جماعت اسلا می کے رسائل وجرائد، کوثر، ایشیا، تر جمان القرآن وغیرہ مطا لعے کی میزوں پر رکھے جا تے تھے، مو لا نا کی کتا بیں دینیات، خطبات، قرآن کی چار بنیا دی اصطلا حیں، الجہاد فی الاسلا م، سود، پر دہ، قرآن فہمی کے بنیا دی اصول، رسائل و مسائل وغیرہ الما ریوں سے لو گوں کو عاریتاً جاری کی جا تی تھیں تفہیم القرآن اُس وقت شائع نہیں ہوئی تھی لائبریری کے ساتھ سراج الدین کے ہاں ہفتہ وار اجتما ع کا اہتما م ہو تا تھا بعد میں یہ اجتما ع اشرف الدین کے ہاں بھی ہوتا رہا عبدا للہ جان کو ان ارکان جماعت میں شمار کیا جا تا ہے جو چٹان کی حیثیت رکھتے تھے انتظا میہ کے ہا تھ میں سیا ستدانوں کو زیر کر نے کے لئے پر مٹ ہوتے تھے، چاول، گھی، چینی، سیمنٹ، تیل اور دیگر اجنا س کے سر کاری پر مٹ دے کر سیا ستدانوں کو خاموش کیا جا تا تھا عبدا للہ جان کے بارے میں ہر جا نے والا افیسر اپنے نوٹ میں لکھتا تھا کہ یہ بندہ پر مٹ قبول نہیں کرتا چنا نچہ انتظامیہ کے سامنے ان کی خود داری ضرب المثل کا در جہ رکھتی تھی عبد اللہ جا ن کو اللہ پا ک نے اولا د کی نعمت سے بھی خوب نوازا، سیف اللہ جا ن اور اسد اللہ جا ن پیشہ تدریس سے وابستہ ہیں شریف اللہ جا ن محکمہ تعلیم کے سٹاف میں بھر تی ہوئے فیض اللہ جا ن نے والد محترم کے کا روبار کو سنبھا لا ہوا ہے، آپ کی ایک بیٹی کو ہاٹ کے عابد حنیف کے عقد میں ہے ایک اور بیٹی یو نیور ستی آف چترال کے پرووسٹ ڈاکٹر تا ج الدین شرر کے ساتھ بیا ہی گئی ہے آپ کا بھتیجا محمد یونس بھی ملنسار اور کا ر گذار نو جوان ہے عبدا للہ جا ن مر حوم اپنی ذات میں انجمن کی حیثیت رکھتے تھے اور نر م دم گفتگو، گرم دم جستجو کی عملی تصویر تھے اللہ آپ کے مسا عی حمیلہ اور اعمال صالحہ کو شرف قبو لیت بحشے اور بشری کو تا ہیوں سے درگذر فرما ئے ”رفتید ولے نہ از دل ما“