داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔ہنر مند بننے کے مو اقع

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔ہنر مند بننے کے مو اقع

خیبرپختونخوا کی حکومت نے نو جوا نوں کو ہنرمند بنا نے کے لئے 5ارب روپے کے میگا پرا جیکٹ یعنی بڑے منصو بے کا اعلا ن کیا ہے اس منصو بے کے تحت حکومت صو بے کے ایک لا کھ جوا نوں کو اٹھا رہ شعبوں کے اندر ہنر (Skills) میں تر بیت دے کر سر ٹیفیکیٹ جا ری کر ے گی اس سر ٹیفیکیٹ پر نو جوا نوں کو ملک کے اندر اور ملک سے با ہر با عزت روز گار ملے گا اس منصو بے میں نئے ضم شدہ اضلا ع کو ملا کر صوبے کے 34اضلا ع سے تعلق رکھنے والے نو جوا نوں کو فائدہ ہو گا 2017ء کی مر دم شما ری کی رو سے صوبے میں نو جوا نوں کی آبا دی کل آبا دی کا 65فیصد ہے یعنی بہت بڑی تعداد نو جوا نوں کی ہے جن شعبوں کے ہنر نو جوا نوں کو سکھا ئے جا ئینگے ان میں پلمبر، تر کھان، مستری، الیکٹریشن، مو ٹر مکینک، ڈرائیور، باور چی، سلا ئی کڑھا ئی بُنا ئی، کمپیو ٹر پر فیشنل، ویلڈنگ، زراعت، مویشی با نی، مرغ با نی، باغبا نی وغیرہ شا مل ہیں تر بیت حا صل کرنے والے نو جوا ن با عزت روز گار کما نے کے قابل ہو جائینگے اس وقت مشرق وسطیٰ کے عرب مما لک میں ہنر مند افراد کی بڑی ما نگ ہے عمو ما ً اس ما ر کیٹ سے بھا رت، نیپا ل اور سر ی لنکا زیا دہ فائدہ اٹھا رہے ہیں اس ما رکیٹ میں پا کستانی کا ریگروں کا حصہ بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے و جہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں افرادی قوت کو تر بیت دیکر ما رکیٹ میں لا نے کی سنجیدہ کو شش نہیں کی گئی ایک مشہور مقو لہ ہے اگر تم چا ہتے ہو کہ تمہارا دوست ہر روز مچھلی کھا ئے تو اس کو روزانہ مچھلی نہ بھیجو، تم اپنے دوست کو مچھلی پکڑ نے کا ہنر سکھا ؤ وہ روز مچھلی لا ئے گا اور رو ز مچھلی کھا ئے گا ہماری صو با ئی حکومت نو جوا نوں کے منہ میں لقمہ ڈا لنے کے بجا ئے نو جو ا نوں کو تر بیت دے کر اپنا لقمہ خو د پیدا کر نے کے قا بل بنا نا چا ہتی ہے ایک بار تر بیت پا کر ہنر مند افراد ما ر کیٹ میں آگئے تو و ہ آسا نی سے ما ر کیٹ میں اپنا مقا م بنا سکتے ہیں اور وقت گذر نے کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں ایک بڑی یو نیور سٹی میں وسائل کے استعما ل پر مذا کر ہ ہو رہا تھا پرو گرا م کے سہو لت کا ر نے شر کاء سے سوال کیا، پا کستان کا سب سے قیمتی وسیلہ کیا ہے؟ شر کا ء نے جو رد عمل دیا وہ متنوع اور مختلف تھا کسی نے کہا معدنیات، کسی نے کہا انا ج کسی نے کہا پھل، کسی نے کہا بندر گاہ، کسی نے کہا پا نی، کسی نے جنگلا ت کسی نے کہا صحرا، کسی نے کہا پہاڑ الغرض جتنے منہ اتنی با تیں شر کا کی اراء کو یکجا کر نے کے بعد سہو لت کار نے وائٹ بورڈ پر لکھا ”انسا نی وسیلہ“ اس کی وضا حت کر تے ہوئے سہو لت کا ر نے کہا پا کستا ن کی آبا دی 22کروڑ سے تجا وز کر چکی ہے اس آبا دی میں 65فیصد نو جو ان شا مل ہیں جنکی مجمو عی تعداد چودہ کروڑ سے اوپر ہے آبا دی کا یہ حصہ پا کستان کا سب سے قیمتی وسیلہ ہے فیلڈ مار شل ایو ب خا ن اور غلا م فاروق خا ن نے 1960ء کی دہا ئی میں ہا ئی سکولوں کے اندر فنی تعلیم کے ور کشاپ رکھنے کا منصو بہ تیا ر کیا تھا، 1970کی دہا ئی میں ور کشاپ بن گئے زراعت کے ورکشا پ تھے، الیکٹر یشن کے ور کشاپ تھے، تر کھا ن اور پلمبر کے ورکشاپ تھے اساتذہ کو تر بیت دینے کا مر بوط نظا م تھا ور کشا پ بننے کے بعد اساتذہ تر بیت پا کر آگئے اور ہا ئی سکو لوں میں اس منصو بے پر عمل شروع ہوا ایک ضلع میں ایک سا لا نہ امتحا ن میں اگر 65ہزار طلباء میٹرک پا س کر تے تھے وہ سب کے سب ہنر مند بھی ہو کر نکلتے تھے ان کے پا س ہنر بھی ہو تا تھا ہنر کا سر ٹیفیکیٹ بھی ہو تا تھا لیکن 1977میں اس منصو بے کو ختم کر دیا گیا، ورکشاپ بر باد ہوئے ور کشاپ کے آلا ت چوری ہو گئے کچھ بھی نہیں بچا شکر کا مقا م ہے کہ مو جو دہ حکومت نے نو جوا نوں کو فنی تر بیت دینے کا پر و گرام بنا یا ہے اگر چند سا لوں تک اس پر عمل ہوتا رہا تو آنے والے وقتوں میں پا کستان خطے میں افراد ی قوت کا اہم برآمد کنندہ بنے گا۔