قلم کی آواز: عبدالحی چترالی۔۔۔۔۔۔۔چترال یونیورسٹی میں مخلوط پروگرام چندمتفرق خیالات

Print Friendly, PDF & Email

قلم کی آواز: عبدالحی چترالی۔۔۔۔۔۔۔چترال یونیورسٹی میں مخلوط پروگرام چندمتفرق خیالات

آج کل سوشل میڈیا پر چترال یونیورسٹی میں منعقدہ کلچر فیسٹیول کے نام پر حیا ء باختہ مخلوط موسیقی پروگرام پر ہر طرف سے نقد وجرح کا سلسلہ جاری ہے جو کہ ظاہر ہے کہ ہر مسلمان کی حمیت ملی اور غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے۔ہمیں حیرت ہے کہ عوام کی طرف سے اس قسم کا رد عمل دیکھ کر دیسی لبرل اور لونڈے کے دانشوروں کی ہنڈیا میں ابال آنا کیوں شروع ہو جاتاہے۔ان کی بھانت بھانت کی بولیوں سے ان کے جہل کے اظہار کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ یہ”عقل و خرد کے پیکر“ کہتے ہیں کہ مذکورہ پروگرام امن باہم کو ترویج دینے کیا گیا۔۔۔۔کوئی چلایا کہ میوزیکل پروگرام سے رواداری کو فروغ ملے گا۔۔۔۔ کوئی سو کنوں والے انداز میں ہاتھ لہرا لہرا کر کہنے لگاکہ یونیورسٹی ایک خودمختار ادارہ ہے تمہیں اس پر تنقید کرنے کا مزا قانونی چارہ جوئی سے چکھایا جائے گا،ایک نے سارے حدود پار کرکے اس کو شرعی جواز فراہم کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
اس پروگرام پر تنقید کرنے والوں کے نام لیتے ہوئے تلملاہٹ ایسی کہ جیسے ناقدین نے ان کی دم پر پاوں رکھ دیا ہو۔ حالانکہ ناقدین کی طرف سے تنقید بھی درست ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ سے وضاحت طلب کرنا بھی بجا طو ر پر سہی ہے کہ امن اور رواداری کے نام پر اس طرح کا مخلوط ڈانس پروگرام رب کریم کا ناپسندیدہ ہے، پیغمبر امن ﷺ کا ناپسندیدہ ہے جو چیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ناپسندیدہ ہو وہ کسی مسلمان شخص،گروہ یا اسلامی ریاست کے تعلیمی ادارے کے لئے فائدہ مند کیسے ہو سکتی ہے؟
ہمارے نزدیک چترال یونیورسٹی کی محفل موسیقی میں دو باتیں قابل گرفت ہیں:
ایک یہ کہ انتظامیہ نے اس محفل کا انتظام کیا جس کی مثال دیگر جامعات میں نہیں ملتی۔
دوسری بات یہ کہ خطے کی مذہبی روایات کو بالائے طاق رکھ کر اس محفل میں طلبہ کے ساتھ طالبات کو بھی شریک کیاگیا ہے۔ مردوزن کی مشترکہ محفلیں سینماہاوس اور میوزک کنسرٹس میں شاید قابل برداشت ہو ں لیکن ایک تعلیمی ادارے میں اس قسم کے مخلوط پروگرام اور وہ بھی ناچ گانے کی محفل تو کسی صورت قابل قبول نہیں۔
ایک مؤقر تعلیمی ادارے میں اس طرح کا بے ہودہ پروگرام منعقد کروانا از خود ادارے کی ساکھ کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو اپنے بچوں اور بچیوں کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند کرنا بھی ہے۔
ہماری نظر میں یہ بھی ایک خوش آئندہ امر ہے کہ بروقت یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ احتیاط برتنے کا عہد کیا گیا ہے۔
موسیقی کا پروگرام بھی ایک ناجائز تفریح ہے جہاں شریعت نے تفریح کے احکام بتائے ہیں اور تفریح کی حدود کو بیان کیاہے وہاں تین باتیں بنیادی طورپر یاد دلائی ہیں: ایک یہ کہ جب بھی تفریح کی جائے وہ اس نوعیت کی ہو کہ اس مقاصد حیات فراموش نہ ہوں۔ دوسری بات شریعت نے تفریح کے حوالے سے یہ بتائی ہے کہ تفریح ایسی ہو جس سے حیا کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ تیسری بات یہ کہ تفریحی پروگرام ایسے ہو کہ جس میں تبذیر اور اسراف سے اجتنا ب کیا جائے۔مذکورہ بالا تین اصولوں کوسامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ مخلوط پروگرام ان تینوں امور سے خالی اور عاری تھا لہذا ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ یونیورسٹی انتظامیہ اس طرح کے حیاباختہ محافل سے اجتناب کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انسانی اقدار کو فروغ دینے میں گوشان رہے گا۔۔
اسلام نے استاد کو بے حد عزت واحترام عطا کیا۔اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی اکرام ﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کی ہے۔ خود رسالت ماب ﷺ نے انما بعث معلما(مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے) فرماکر اساتذہ کو رہتی دنیا تک عزت و توقیر کے اعلی منصب پر فائز کردیا ہے۔ اسلام میں استاد کا مقام ومرتبہ بہت ہی اعلی وارفع ہے۔ استاد کو معلم ومربی ہونے کی وجہ سے اسلام نے روحانی باپ کا درجہ عطا کیا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا انما انا لکم بمنزلہ الوالداعلمکم(میں تمہارے لئے بمنزلہ والد ہوں،تمہیں تعلیم دیتا ہوں)۔امیر المومنین حضرت عمرؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلفیہ ہونے کے باوجود آپؓ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے۔آپ ؓ نے فرمایا کاش میں ایک معلم ہوتا۔ استاد کی ذات بنی نوع انسان کے لئے بیشک عظیم اور محسن ہے۔باب العلم خلیفہ چہار م حضرت علی ؓ کا قول استاد کی عظمت کو یوں بیان کرتے ہیں۔ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلا م ہوں۔ وہ چاہے تو مجھے بیجے،آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔شاعر مشرق مفکر اسلام علامہ اقبال معلم کی عظمت کی غمازی کرتا ہے:”استاد دراصل قوم کے محافظ ہیں۔کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلی درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے معلموں کی کارگزار ی ہے۔معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے۔اور ہر قسم کی کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے“۔

استاد طلبا ء کو نہ صرف مختلف علوم وفنون کا علم دیتا ہے بلکہ اپنی ذاتی کردار کے ذریعے ان کی تربیت کاکام بھی انجام دیتا ہے۔استاد ہر پل اپنی رفتار،گفتار،کردار غرض ہر بات میں معلم ہوتا ہے، طلباء صرف نصاب ہی نہیں پڑھتے ہیں بلکہ وہ استاد کی ذات وشخصیت کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔
لہذا کارپیغمبری سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اور قوم وملت کے ذمہ دار منصب پر فائز ہونے کی بناء پر سوسائٹی کا ہر فرد استاد کو عزت و احترام کی نگا ہ سے دیکھتا ہے۔ اوراس سے ایسے کردار کا تقاضہ کرتا ہے جس سے سوسائٹی کے تعلیم یافتہ اور شائستہ افراد کی امیدوں کو ٹھیس نہ پہنچے۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ استاد کا احترام اس وقت طلبہ کے دلوں میں زیادہ ہوگا جب استاد اس منصب کے تقاضوں پر پورا اترے گا۔طلباء کی اخلاقی تربیت اور اعلی انسانی اقدار کی طرف ان کی رہنمائی کرے گا۔آخر میں عوام الناس سے گزارش ہے کہ اساتذہ کرام معماران قوم ہیں۔ ان کا ادب و احترام ہمارا اخلاقی و دینی فریضہ ہے۔