دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔”میں انصاف سے ڈرتا ہوں“
جن کو روز جزا اور قیامت پہ یقین ہے وہ ظلم سے اور نا انصافی سے ڈرتے ہیں وہ ہمہ وقت اس سوچ اور فکر میں رہتے ہیں کہ کہیں ان سے ظلم سرزد نہ ہو جائے کہیں ان کی طرف سے نا انصافی نہ ہو جائے کیونکہ ان کو یقین ہے کہ ان کو کل اللہ کے حضور زندگی کے لمحے لمحے کا حساب دینا ہے۔لیکن میرا مطمع نظر دنیا ہے۔دنیا کی رنگینی اور چکا چوند میرا خواب ہے میرا مقصد ہے دنیا کی رنگینی میری منزل ہے عہدہ پیسہ جاگیر دولت میری کامیابی ہے میں پیدا اس لیے ہوا۔تعلیم اس لیے حاصل کرتا ہوں امتحانات اس لیے پاس کرتا ہوں سروس اس لیے کرتا ہوں سیاست میں اس لیے جاتا ہوں اس سمے مجھے ظلم جائز اور انصاف ناجائز لگتا ہے۔میرے سامنے میرے ابو نے کمایا لیکن کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ کیسے کمایا؟اس کو سفارشیں آتی تھیں اور سفارش بھی وہ قبول ہوتی جس میں فایدہ ہو۔میرے ڈھیرے میں سیاسی میٹنگیں ہوتی تھیں لیکن ان میں کسی انصاف کا ذکر نہیں ہوتا سیاسی چالوں دھندوں انتقام اور فایدے کی بات ہوتی۔میرے ابو جس کی بات مانتا جس کو فایدہ پہنچانا چاہتا وہ یا تو دوست رشتہ دار ہوتا یا سیاسی لحاظ سے وفادار ہوتا یا رشوت گزار ہوتا دھن دولت سے جولی بھر دیتا۔میرے ابو کے سامنے انصاف کا کوئی معیار نہیں تھا لہذا میں بھی اس سے نا اشنا رہا۔سکول پہنچا تو وہاں بھی ماحول ایسا ہی تھا استاد اس طالب علم کو اہمیت دیتا جس سے اس کو کوئی فایدہ ہو امیر وزیر اور دھن دولت اور جاگیردارزادے وہاں بھی صف اول میں ہوتے۔اب مجھے بھی مقابلے کا شوق چرآیا۔میں نے کسی نہ کسی طریقے سے اپنا مقام بنا لیا۔استاد بن گیا ٹھیکہ دار بن گیا۔پولیس مین بن گیا۔کلرک بن گیا انجینئر بن گیا ڈاکٹر بن گیا سیاست دان بن گیا۔اب میرے سامنے دنیا کی رنگینیان مذید جلوہ دینے لگیں۔اب میں انصاف سے بھاگنے لگا۔اس لیے کہ میں نے اس کو عملی طور پر کہیں نہیں دیکھا تھا گھر میں ابو انصاف کی بڑی باتیں کرتے تھے مگر کبھی اس کا عملی مظاہرہ نہیں کیا سکول میں استاد کلاس روم میں اس کی بڑی باتیں کرتا تھا لیکن ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ استاد جی اس کا کبھی عملی مظاہرہ کر رہا ہے۔پھر نوکری کے پیچھے بھاگتے ہوئے تو میں نے ایسا ایسا تجربہ کیا کہ انصاف ایک کمزوری اور حماقت کا نام ہے جو انصاف کرئے گا اس کی جگہ اس دنیا میں کہیں نہیں تو کون احمق ہوگا جو اپنے آپ کو نقصان پہنچاتاہے۔اب میں ذمہ دار ہوگیا ہوں تو انصاف سے بہت ڈرنے لگا ہوں۔اگر میں انصاف کروں گا تو اس معاشرے میں جی نہیں سکوں گا۔مجھے اپنے سے بڑے آفیسر،سیاسی مستنڈے،دوست اور رشتہ دار کا حکم ماننا پڑے گا رشتہ دار کی بات نہ مانوں تو برادی سے کٹ جاؤں۔دوست کی بات نہ مانوں تو معاشرے میں تنہا رہ جاؤں۔۔آفیسر اور سیاسی مستنڈے کی بات نہ مانوں تو نوکری ذمہ داری سے ہاتھ دھو بیٹھوں۔۔اس لے انصاف سے ڈرتا ہوں۔ میں استاد ہوں میرے سامنے میرے آفیسروں کی ترجیحات ہیں میرے سامنے کسی آفیسر،سیاسی کارکن، میرے رشتہ دار اور اس آدمی کا بیٹا ہے جس سے مجھے کوئی کام پڑا ہے اس بچے کے ذریعے وہ ناجائزکام کرانا ہے میں استاد ہوں معاشرے میں مقام ہے انصاف کا عالمبردار ہوں مگر سمسٹر کے نمبر دیتے ہوئے مجھے انصاف سے بہت ڈر لگتا ہے کہیں انصاف کرنے سے میرا ”خاص“ بندہ میری خصوصی عنایت رعایت سے محروم نہ ہوجائے۔میں ڈاکٹر ہوں میرے سامنے مریض ہے میں انصاف سے ڈرتا ہوں کہیں اپنے تعلق کی کمپنی کی میڈسن نہ لکھوں تو کمیشن سے محروم ہو جاؤں۔میں پولیس مین ہوں مجھے ایف آئی آردرج کرنا ہے آگے ساری کیس کا دارومدار اس ایف آئی آرپر ہے میں انصاف سے ڈرتا ہوں کہ کہیں میرا ”تعلق دار“ اس ایف آئی آر سے برباد نہ ہوجائے۔میں انجینئر ہوں ٹنڈر کھولوں یا پراجیکٹس کا معائینہ کرنے جاؤں تو انصاف سے ڈرتا ہوں اگر انصاف کروں تو اس پراجیکٹ سے کمیشن کیسے حاصل ہو۔۔مجھے گھر بھی بنانا ہے بچوں کی تعلیم کا بھی مسئلہ ہے اور آگے مجھے حج پہ بھی جانا ہے۔۔میں سیاست میں ہوں۔ مجھے اپنی پارٹی اور پارٹی کارکنوں کے لیے کام کرنا ہے اس لیے انصاف سے بہت ڈرتا ہوں۔اس وجہ سے میں نے یہ لفظ ہی اپنی ڈکشنری سے مٹا دیا ہے۔۔اس لفظ نے فضول میں ڈسٹرب کیا ہے۔۔جو ڈرے گا وہ مرے گا۔۔ڈر کر زندگی کیا زندگی ہے۔۔یہ معاشرہ نہیں اندھیر نگری ہے۔۔اندھیر نگر ی میں چوپٹ راج ہوتا ہے۔اکیلی جان ساری دنیا سے کیا لڑے۔۔حقیقت یہ ہے کہ سب انصاف سے ڈرتے ہیں اگر ظلم سے ڈرنے کا کلچر ہو تو یہ دنیا جنت بن جائے۔یہ لوگ جو اللہ پر یقین کی بات کرتے ہیں جھوٹ بولتے ہیں۔ اگر سچ میں یقین کرتے تو ان کا یقین آخرت پہ بھی ہوتا حساب کتاب پہ بھی ہوتا۔۔اللہ کی کتاب سے سورہ القاریہ تلاوت کرتے اور زرے زرے کے حساب کتاب سے ڈرتے۔جو اس پہ یقین کرئے گا وہ ظلم سے ڈرے گا جو ظلم سے ڈرے گا وہ انصاف کرئے گا۔میں بڑا ظالم ہوں کہ انصاف سے ڈرتا ہوں۔۔۔۔۔