داد بیداد ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی،،،،،،،،منزل ہے کہاں تیری!
حکومت نے اپنے منشور کے مطا بق نئے تعلیمی سال سے یکساں نصاب تعلیم متعارف کر انے کا فیصلہ کیا ہے تحریک انصاف کے منشور میں اس بات کی ضما نت دی گئی ہے کہ قوم کو ایک رخ دینے اور اس کی ایک واضح منزل متعین کر نے کے لئے نظام تعلیم کا یکساں ہو نا ضروری ہے آج ہمارے جو بچے یکساں نظام تعلیم کے تحت علم و ہنر سیکھینگے تعلیم و تر بیت حا صل کرینگے کل کو وہ بچے فکر ی ہم آہنگی، ذہنی ہم آہنگی اور خیال کی پختگی کے ساتھ ایک قوم بن جا ئینگے ان کی ذہنی اور فکری رخ ایک ہو گا ان کی منزل ایک ہو گی منشور بنا تے وقت پارٹی کے با نی عمران خا ن نے کمیٹی کے سامنے چین کی مثا ل دی تھی یہ وہ قوم ہے جس نے ایک نظریہ، ایک سوچ اور ایک ہی فکر سے اپنے نو نہا لوں کو مزین کیا آگے جا کر نو نہا لوں کی یہ نسل ایک عظیم قوم بن گئی تمہید لمبی ہو گئی مگر یہ تمہید سے زیا دہ عنوان کا تعارف ہے منزل کو ڈھونڈ نے اور پا نے کے لئے قوم کے سامنے واضح رُخ یا ڈائریکشن ہو نا چا ہئیے وطن عزیز پا کستان کے نو نہا ل اس وقت 13مختلف طرز کے سکو لوں اور مدرسوں میں 13اقسام کے نصاب پڑھ رہے ہیں ان کا ذہنی اور فکر ی رُخ 13مختلف اطراف کی طرف ہیں اور وہ 13مختلف منزلوں کی طرف گامزن ہیں گویا ایک ہی ملک میں 13قومیں پروان چڑھ رہی ہیں مسلکی اور نسلی تعصبات پر مبنی سوچ اور فکر کو شمار کیا جا ئے تو یہ تعداد 29بنتی ہے قومی اسمبلی کی 34اور سینیٹ کی 7قائمہ کمیٹیوں کی مثال کو سامنے رکھیں یہ بیحد اہم کمیٹیاں ہیں ان کا کام قا نون سازی ہے جب کوئی مسودہ قانون ان میں سے کسی کمیٹی کے سامنے آتا ہے تو تجربے میں یہ بات آجا تی ہے کہ کمیٹی کے ممبران میں سے ایک تہا ئی کو انگریزی کے سوا کوئی زبان نہیں آتی بقیہ دو تہا ئی ممبروں میں آدھے کا رخ شما ل کی طرف ہے آدھے کی نظر جنوب کی طرف ہے خوا تین کے حقوق کا بل ہو یا گھنا و نے جر ائم کی سزا وں کا بل ہو، سود سے پا ک معیشت کا بل ہو یا مسا وات پر مبنی نظام معیشت کا قانون زیر بحث ہو یا کوئی اور اہم مسئلہ ہو 34یا 14شر کاء میں سے کوئی بھی دو اراکین ہم خیال نظر نہیں آتے جن کی تعلیم اکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ کے نصاب پر ہوئی ہے ان کو اردو پڑ ھنا اور لکھنا نہیں آتا جن کی تعلیم در س نظا می کے 6الگ الگ مدرسوں میں ہوئی ہے وہ انگریزی نہیں جا نتے اردو اور انگریزی سے جو ثقا فت اور فکر وابستہ ہے وہ الگ الگ ہے ان دونوں انتہا وں کے درمیان تیسرا طبقہ ہے جس کی تعلیم و تر بیت سات اقسام کے سستے پرائیویٹ سکو لوں اور سر کاری تعلیمی اداروں میں ہوئی ہے اس طبقے کا رُخ الگ الگ ہے یہ نو جوا ن سات مختلف جوانب کی طرف روان ہیں ان کے سامنے 7الگ الگ منزلیں ہیں یہ لو گ جب کسی قائمہ کمیٹی میں، کسی اسمبلی میں، کسی سیا سی پارٹی میں یا کسی حکومت کی کا بینہ میں یکجا ہو تے ہیں تو ان کی نظر کسی مشترک مقصد پر نہیں ہو تی یہ لو گ 13مختلف اطراف پر نظر رکھتے ہیں ان کی میٹنگ میں قوم نظر نہیں آتی ہجوم یا منڈلی کا گما ن ہو تا ہے اس ہجوم کو آخر کو نسی چیز قوم بنا ئے گی؟ جواب یہ ہے کہ صرف اور صرف یکساں نصاب تعلیم اس کو قوم بنا سکتی ہے آپ ایک سیا سی جما عت کی مثال لے لیں جس کے نصف ارکا ن اردو اخبار نہیں پڑ ھ سکتے، بقیہ نصف انگریزی اخبار نہیں پڑھ سکتے ان کی سوچ اور فکر کس طرح یکساں ہو گی ان میں فکر ی ہم آہنگی کہاں سے آئے گی؟ چین، جا پا ن، تر کی، ایران اور کو ریا نے منتشر سوچ کے ساتھ تر قی نہیں کی، پرا گندہ خیا لات اور بھٹکے ہوئے نظر یات کے ساتھ تر قی نہیں کی ان قو موں کے لیڈروں نے پہلے یکساں نظام تعلیم دیا، نظر یا تی اور فکری ہم آہنگی دی پھر اس نظریے کی بنیا د پر قوم بن گئی قوم کو ایک رُخ ملا ایک منزل مل گئی اب یہ آسا ن کا م نہیں ہے ما ہا نہ ایک لا کھ روپے ٹیوشن فیس لینے والے پرائیویٹ سکو لوں کو 2ہزار ما ہا نہ فیس لینے والوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا بہت مشکل ہے اور پرائیوٹ سکو لوں کے پورے سسٹم کو سر کا ری سکو لوں کے نظام سے ہم آہنگ کرنا ما ونٹ ایورسٹ کی چو ٹی کو سر کرنے کے مترا دف ہے اگر 6اقسام کے مسلکی مدارس کو آپس میں ہم آہنگ کرنا با لکل نا ممکن ہے تومدارس کے نظام کو سکولوں اور کا لجوں کے سسٹم سے ہم آہنگ کرنا گو یا پہاڑکھو د نے اور دوھ کی نہر لا نے کے برابر ہے اس میں تعلیمی ما ہرین کا بھی کر دار ہو گا، سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کا بھی حصہ ہو گا اور سب سے بڑھ کر سیا سی رہنما وں کے عزم کی ضرورت ہو گی سب یکجا ہو جائیں تو قوم کو رخ بھی ملے گا منزل بھی ملے گی پھر کوئی نہیں پو چھے گا ”منزل ہے کہاں تیری“۔