داد بیداد ۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخری دن
سر کاری سڑ کوں، پلوں اور عما رتوں کی مر مت کا مہینہ جون کا مہینہ ہوتا ہے اس مہینے دس سالوں کا کام نہا یت تیزی اور چا بکدستی کے ساتھ کیا اور کرایا جا تا ہے کیونکہ 30جو ن کا آخری دن آنے سے پہلے سارے کام مکمل کر نے ہوتے ہیں بلوں کو پاس کر کے 30جو ن کی رات 12بجے تک بینکوں سے پیسہ نکا لنا ہوتا ہے بہت اچھی حکو متیں آئیں بہت اچھے حکمرا ن آئے کسی نے بھی جو لا ئی یا اگست کے مہینے میں ایم اینڈ آر کا فنڈ خر چ نہیں کیا دسمبر یا مارچ کے مہینے میں ایم اینڈ آر کا فنڈ خر چ نہیں کیا یہ کام جو ن کے مہینے کے لئے ملتوی رکھا اس میں جا نے کیا حکمت ہے جو ن کا مہینہ حساب کتاب کے لحاظ سے مقدس مہینہ شمار ہو تا ہے اور جو ن کا آخری دن سب کی نظر میں مقدس ترین دن ہوتا ہے بعض من چلے اس کو اکا ونٹ آفس کا دن بھی کہتے ہیں اکا ونٹ آفس اگر بل کو پا س نہ کرے چیک پر دستخط نہ ہو تو فنڈ واپس چلا جاتا ہے کام اگر مکمل بھی ہوا ہو اس کا بل نہیں ملتا اس لئے بل والے ہر ممکن کو شش کر کے اس دن اپنا بل پا س کرواتے ہیں چا ہے بل کے لئے دل اور جا ن کی بازی لگا نی پڑے تب بھی وہ قر با نی دینے سے نہیں چو کتے فرنگی سامراج کی 100سا لہ حکومت میں ما لی سال یکم جو لا ئی سے شروع ہو کر اگلے سال 30جو ن کو ختم ہو تا تھا اور ما لی سال کو دو سا لوں میں تقسیم کیا گیا تھا قیام پا کستان کے بعد یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تا ہم فرنگی دور میں ایم اینڈ آر کا فنڈ صرف جون کے مہینے میں نہیں ملتا تھا یہ فنڈ فروری اور ما رچ میں بھی مل جا تا تھا اکتو بر اور نو مبر میں بھی مل جا تا تھا اُس زما نے میں فنڈ جاری کرنے پر کوئی کمیشن نہیں تھا دفتری اصول کے تحت فنڈ مفت میں جا ری ہو تا تھا بل پا س کر نے پر کوئی کمیشن نہیں تھا بل بھی مفت میں پا س ہوتا تھا البتہ بل بنا نے والا دفتری قواعد و ضوابط کی پا سداری کر کے ضروری دستا ویزات بل کے ساتھ منسلک کرتا تھا دستا ویزات کو دیکھ کر بل پر اعتراض کر کے واپس بھیجا جاتا یا بلا تردد پا س کیا جاتا تھا بل بنا نے والے دفترکا عملہ ہزاروں اور لا کھوں روپے کا بل بینک سے نقد صورت میں وصول کر کے کام پر لگا تا بل پاس کر نے والا اپنی تنخوا ہ پر گزارہ کرتا تھا فرنگی کے جا نے کے بعد رفتہ رفتہ دفتر ی کا موں میں با لا ئی آمدنی کا رواج شروع ہو ا بل پا س کرنے والوں نے کہنا شروع کیا ہمارا حصہ کہاں؟ فنڈ جاری کر نے والوں نے مطا لبہ شروع کیا ہمیں کیا ملے گا؟ اس طرز عمل نے جہاں تر قیاتی کا موں کا معیار گرا دیا وہاں سر کاری خزا نے سے آنے والے فنڈ کے درست استعمال پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا خیبر پختونخوا کی صو بائی حکومت نے وزیر اعظم عمران خا ن کے وژن اور تحریک انصاف کے منشور کے مطا بق سر کاری خزا نے کا ایک ایک پیسہ بچا نے کا عزم کر رکھا ہے وزیر اعلیٰ محمود خان اور وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے تر قیا تی کا موں اور سر کاری سکیموں کی مر مت کو معیار کے لحاظ سے اعلیٰ پیما نے کا کام ثا بت کر نے کا تہیہ کیا ہوا ہے اپنی بجٹ تقریر اور بجٹ کے بعد اپنی پریس کا نفرنس میں وزیر خزانہ نے کئی انقلا بی اور اصلا حی اقدامات کی طرف اشارہ کیا ہے ان اقدامات کے نتیجے میں اگر تر قیا تی اور مرمتی کام سارا سال جاری رکھنے کا طریقہ ازما یا جا ئے تو بہتر ہو گا اور عوام کو تبدیلی کا ثمر نظر آئے گا ٹھیکہ دار طبقہ بھی سکھ کا سانس لے گا، دفتری عملہ بھی دیا نت داری کیساتھ اپنا فرض نبھا ئے گا اس سال 8جو ن کو ایم اینڈ آر کے نا م سے فنڈ ریلیز ہوئے 22دنوں میں سڑ کوں، پلوں اور عما رتوں کی مرمت مکمل کر کے 30جون کو بل پا س کرنا ہے کام کے معیار کااندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے اگر اگلے سال کے بجٹ میں تر قیاتی سکیموں کے ساتھ ایم اینڈ آر (مینٹے ننس اینڈ ریپیر) کا فنڈ 10جو لا ئی کو ریلیز کیا گیا تو اگست میں کام شروع ہو گا اگلے سال مارچ یا اپریل تک کام مکمل ہو گا جون کے مہینے کے لئے کوئی بل نہیں بچے گا اگر فنڈ ریلیز کرتے وقت کمیشن لینے کا سلسلہ بند ہوا تو ٹھیکہ دار کو احساس ہو جائے گا کہ بد یا نتی کی گنجا ئش نہیں اور بل پا س کر تے وقت بھی کمیشن دینا نہیں پڑے گا وہ فنڈ کا 80فیصد سکیم پر لگا ئے گا 20فیصد کی حق حلا ل مزدوری حا صل کرے گا اب تر قیا تی فنڈ کا 65فیصد دفتر میں خر چ ہوتا ہے اس لئے کام کا کوئی معیار نہیں ہوتا ساری تو جہ آخری دن کمیشن دے کر بل پاس کرنے پر مر کوز ہو تی ہے۔