داد بیداد ۔۔۔۔ڈکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔عوام کی طا قت
آج کل اخبارات میں عوامی طا قت سے کا میاب ہو نے کے دعوے تواتر کے ساتھ پڑ ھنے کو مل رہے ہیں یہ بات یورپ اور امریکہ پر شا ید صا دق آتی ہو گی بر صغیر پا ک و ہند اور ایشیا، افریقہ وغیرہ کے کسی ملک پر صا د ق نہیں آسکتی میا نمر کی تا زہ ترین مثا ل سب کے سامنے ہے بر صغیر کے جن مسلم اکثریتی علا قوں کو یکجا کر کے مملکت خدا داد پا کستان کا قیام عمل میں لا یا گیا اس خطے کی تاریخ ہمیں بتا تی ہے کہ عوامی طاقت سے کچھ نہیں ہوتا یہاں تک کہ بنگلہ دیش بھی عوامی طاقت سے نہیں بنا بھارتی فو ج کی طا قت نہ ہوتی تو بنگا لی عوام کچھ بھی نہ کر پا تے عوامی طاقت ہمیشہ اسٹبلشمنٹ سے شکست کھا تی ہے دو بڑی مثا لیں ہماری تاریخ میں مو جو د ہیں خو شحا ل خا ن خٹک صا حب سیف و قلم تھے عوام میں بیحد مقبول تھے مسجد کے محراب و منبر سے لیکر پختون معا شرے کے حجر ے تک ہر جگہ ان کے نا م کا ڈنکا بجتا تھا عوا می طا قت ان کی پُشت پر تھی لیکن مغل دربار اپنے وقت اور زما نے کے لحا ظ سے اسٹبلشمنٹ کا در جہ رکھتا تھا اورنگ زیب عالمگیر اسٹبلشمنٹ کے منہ زور گھو ڑے پر سوار تھا ان کے مقا بلے میں عوامی طاقت خو شحا ل خٹک کے کا م نہ آسکی، تحریک مجا ہدین کے سپہ سا لا ر اور امیر المجا ہدین سید احمد بریلوی ؒ وقت کے ولی اور پیر کا مل تھے ان کے مرید بنگا ل اور بہار سے لیکر کا بل اور قند ھا ر تک پھیلے ہوئے تھے عوامی طا قت کے لحا ظ سے کوئی دوسرا نہیں جو ان کا مقا بلہ کر سکتا لیکن بات اسٹبلشمنٹ کی آگئی تو مہا راجہ رنجیت سنگھ کے ہاتھ سے بنا ئی ہوئی حکومت نے شیر سنگھ جیسے گمنا م شخص کو مقا بلے پر لا یا شیر سنگھ اور امیر المجا ہدین کے درمیان عوامی مقبو لیت کا کوئی توا زن نہیں تھا کوئی موازنہ ممکن ہی نہیں تھا اس کے با وجود معرکہ با لا کوٹ میں میدان شیر سنگھ کے ہاتھ آیا، امیر المجا ہدین نے بے جگر ی سے لڑ تے ہوئے جا ن کی بازی لگا دی امیر المجا ہدین جب بو نیر کے مر کزپنچ تار میں مقیم تھے مر دان، صو ابی اور سوات کے خوانین، تہکا ل کے ارباب سب آپ کے ساتھ تھے اس کے باو جود حضرت امیرالمجا ہدین نے ایک دن شاہ اسما عیل اور چند دیگر معتمدین کو بلا یا جب حا ضر ہوئے تو اپنا دکھ در دان کے سامنے رکھا سید نفیس الحسینی ؒ نے ان الفاظ میں اس دکھ بھری داستان کو سمیٹ لیا ہے ”ہم نے خطوط لکھے یہاں تک کہ لکھنے والے لکھتے لکھتے تھک گئے، ہم نے وفود بھیجے یہاں تک کوئی ایسی جگہ نہ رہی جہاں ہمارا وفد نہ پہنچا ہو مگر عوامی حما یت اور تا ئید ہمیں حا صل نہ ہوئی جب بھی برا وقت آیا ہم نے خود کو تنہا پا یا“1832ء میں اپنی شہا دت سے چند دن پہلے با لا کوٹ میں وعظ کہتے ہوئے اپنا دکھ درد اس طرح بیان کیا ”دیکھو ہم اکیلے نہیں اللہ پا ک کی تائید اور نصرت ہما رے ساتھ ہے مگر شیر سنگھ کے سپا ہیوں کو پہاڑوں کی چو ٹیوں کا راستہ کس نے دکھا یا؟ کیا مقا می لو گ ان کی مدد نہیں کر تے؟“ اور حقیت یہ تھی کہ مقا می لو گ امیر المجا ہدین کی اقتداء میں نما ز پڑ ھتے تھے سلا م پھر نے کے بعد شیر سنگھ کے سپا ہیوں کی رہنما ئی کر کے ان کو پہا ڑ کی چو ٹیوں تک لے جا تے تھے اگر چہ اُس زما نے کی لغت میں اسٹبلشمنٹ کا نا م نہیں آتا تھا مگر حقیقت یہ تھی کہ شیر سنگھ اسٹبلشمنٹ کا نمائیند ہ تھا امیر المجا ہدین کو عوامی طا قت کے لحا ظ سے سکھوں پر واضح برتری حا صل تھی لیکن جب اسٹبلشمنٹ کا سامنا ہو تا تھا تو عوامی طاقت ریت کی دیوار ثا بت ہوتی تھی چنا نچہ اپنی آخری تقریر میں امیر المجا ہدین نے کہا ”لا ہور کو بھول جاؤ جنت کو یا د کرو“ عوامی طاقت نے اگر خو شحال خا ن خٹک اور سید احمد بریلوی ؒ کا ساتھ نہ دیا تو کسی اور کا کیا ساتھ دیگی؟ دورحا ضر کی ملکی اور قومی سیا ست کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ عوامی طاقت کا گھمنڈ کسی کو راس نہیں آتا عوام کی طاقت اسٹبلشمنٹ کے اشارہ آبرو پر ڈھیر ہو جا تی ہے اس گھمنڈ میں کوئی نہ رہے۔