داد بیداد ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔سوات کا سر بلند

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔سوات کا سر بلند
سوات کا سر بلند
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اپنے تا زہ ترین بیان میں اس بات پر زور دیا ہے کہ علم کی روشنی پھیلا نا صرف حکومت کا کام نہیں اس کا م میں عوام کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہو گا سول سو سائیٹی کی تنظیموں کو بھی حکومت کا ساتھ دینا ہو گا بحرین سوات سے نکلنے والے علمی اور تحقیقی مجلہ سر بلند کے اوراق سے یہی بات سا منے آتی ہے کہ علمی آگا ہی پھیلا نے میں عوام اور سول سو سائیٹی کی تنظیموں کا کر دار حکومت کے اقدامات کو مزید تقویت دیتا ہے سوات کا سر بلند ایسا مجلہ ہے جو کسی بھی طرح یو نیور سٹی اور بڑے تحقیقی اداروں کے جرائد ورسائل سے کم نہیں بلکہ وقعت اور ما ہیت میں اُن کے بر ابر و ہم سر ہے سر بلند کے لکھا ریوں میں گجرات سے گلگت اور چلا س سے چترال تک بڑے بڑے محقق، دانشور اور ادیب شامل ہیں اس کے عنوا نات و مضا مین کا دائرہ لسا نیات اور بشریات کا احا طہ کرتا ہے اس میں گلگت، بلتستان ہنزہ، انڈس کو ہستان، سوات کوہستا ن،سوات، دیر، چترال اور وادی کا لا ش کی تہذیب و تمدن کے پو شیدہ گو شوں پر قلم اٹھا یا گیا ہے مثا ل کے طور پر بہت کم لو گوں کو علم ہو گا کہ ہزارہ کوہستان میں ڈنہ کی پہا ڑی وادی کے اندر ما نکیا لی زبان بو لی جا تی ہے جو صرف 400(چارسو)ابادی کی زبان ہے جو اس کواپنی زبان کہتے ہیں بہت کم لو گوں کے علم میں یہ بات ہو گی کہ تور والی زبان میں ژو کے نا م سے ایک صنف سخن ہے جو ٹپہ اور اشور جا ن کی طرح ہزاروں سال پرا نی صنف ہے بہت کم لو گوں کو اس بات کا علم ہو گا کہ منفر د تہذیب رکھنے والے کا لا ش قبیلے میں کہا نت یعنی شامنزم کی صفت ختم ہو چکی ہے 1950ء کے عشرے کے بعد کوئی کا ہن پیدا نہیں ہوا اس طرح کی کئی باتیں ہیں جو لا ہور، کراچی اور ملتا ن یا پشاور کا کوئی مجلہ منظر عام پر نہیں لائے گا سر بلند نے سوات سے سراُٹھا یا ہے اس کا مقصد پہاڑی علا قوں کے ادیبوں اور قلمکاروں کو مواقع دینے کے ساتھ پہا ڑی علا قوں کی تہذیب کے پو شیدہ گو شوں کو منظر عام پر لا نا ہے مجلے میں راز ول کو ہستا نی، ز بیر تور والی، ڈاکٹر کا شف علی، عزیز علی داد اور سیوا تسلوف کیورین وغیرہ کے مقا لا ت خا ص طور پر تحقیقی نقطہ نظر سے لائق تو جہ ہیں سیوا تسلو ف اور شملیا اوف نے ملکر دردستان پر ایک تعارفی مقا لہ لکھا ہے عمران خا ن آزاد نے سر بلند کے لئے مقا لے کو اردو کا جا مہ پہنا یا مقا لے کے اندر کو ہستا نی، شینا، بلتی اور کھوار تہذیب و زبان کے ساتھ مشرق میں بروکپا، مغرب میں پشائی اور درمیان میں کا لا ش کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ آیا ہے جو دردستان کے تاریخی، جعرافیا ئی اور معا شرتی پس منظر کو نما یا ں کر تا ہے راز ول کو ہستانی نے شما لی پا کستان کے آثار قدیمہ پر ہو نے والی تحقیق کیساتھ اس تحقیقی کا وش کے جرمن، فرانسیسی اور انگریزی ما خذات پر قلم اٹھا یا ہے زبیر تور والی کا تحقیقی مقا لہ ایک وسیع تر کینو س میں شما لی پا کستان اور ہا ئی ایشیا کی زبا نوں میں حروف تہجی اور رسم الخط کے مسا ئل کا احا طہ کر تا ہے لسا نیاتی مبا حث میں مصو توں اور مصمتوں کا فرق رسم الخط کے ذریعے واضح کر نے کی مثا لیں دی گئی ہیں ڈاکٹر کا شف علی نے کا لا ش تہذیب میں کا ہن اور کہا نت (Shamanism) کے زوال کا تحقیقی جا ئزہ لیا ہے اس کی طرف سیوا تسلوف کورین نے بھی اشارہ کیا ہے یہ روایت بلتستان، ہنزہ اور گلگت سے لیکر چترال اور وادی کا لاش تک پا ئی جا تی تھی شاما ن یا کا ہن پر یوں کی مدد سے ما فوق الفطرت کا م کرتا تھا وہ خواب دیکھتا تھا پیش گوئی کرتا تھا پہاڑوں اور جنگلوں میں گم ہونے والے مویشیوں اور انسا نوں کا سراغ لگا تا تھا یہاں تک کہ پہاڑی کے اندر ایک طرف سے سرنگ کر کے پا نی کی ندی لیکر دوسری طرف نکل جا تا تھا وقت کی رفتار کے ساتھ ما حول میں آلو د گی بڑھ گئی، پریوں کا آنا ممکن نہیں رہا اس لئے کا ہن اور شما ن بھی کوئی نہ بن سکا ڈاکٹر کا شف علی گجرات یو نیورسٹی میں تاریخ کے پرو فیسر ہیں ان کے پی ایچ ڈی کا مقا لہ کا لا ش کی اصلیت پر ہے اس لئے ان کا مقا لہ بہت وقیع ہے تور والی زبان کی منفرد صنف شاعری ”ژو“ پر رحیم صابر نے قلم اٹھا یا ہے اس طرح مفتی عنا یت الرحمن ہزار وی نے وادی ڈنہ کی زبان ما نکیا لی کا تعارف پیش کیا ہے یہ بھی تحقیقی ذوق کا مقا لہ ہے دلچسپ بات یہ ہے اس زبان کے بولنے والوں کی آبادی محض چار سو (400) ہے اور یہ لو گ اس کو ”اپنی زبان“ کہتے ہیں تاہم ما ہرین لسا نیات نے اس کو ما نکیا لی کا نا م دیا ہے یو نیور سٹی آف نا رتھ ٹیکساس میں ڈاکٹر صدف منشی اس زبان پر کام کر رہی ہیں انہوں نے ڈنہ سے ما نکیا لی بولنے والے ایک گریجو یٹ نو جوان کو اپنے لسا نیاتی کورس میں داخلہ دیا ہے تاکہ وہ اپنی زبان پر تحقیق کا حق ادا کر سکے سر بلند کا پہلا شما رہ بے شما ر خو بیوں کا حا مل ہے زبیر تور والی اس کے ایڈیٹر ہیں اور ادارہ تعلیم و تر بیت کے اہتما م سے یہ وقیع علمی اور تحقیق مجلہ شائع ہو تا ہے 342صفحوں کا مجلہ کتا بی ضحا مت میں پکی جلد بندی کے ساتھ شائع ہو ا ہے شعیب سنز مینگورہ میں دستیاب ہے۔