تئیس ہزار کی آبادی والے یونین کونسل کوشت کے عوام نے پریس کلب کے پروگرام ،،،مہراکہ،، میں مسا یل کے انبار لگا دیے۔

Print Friendly, PDF & Email

چترا ل (نما یندہ چترا ل میل) اپر چترال کا معروف علاقہ کوشت اپنی تہذیبی، ثقافتی اقدار اور وسیع آراضی اور بڑی آبادی کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ لیکن تئیس ہزار کی آبادی والے اس یونین کونسل میں مسائل بھی لا تعداد ہیں۔ انسانی زندگی سے وابستہ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے۔ جس سے اس علاقے کے لوگوں کو مشکلات درپیش نہیں ہیں۔ اور ان لوگوں نے اپنی آواز حکومت تک پہنچانے کیلئے کوئی ممکنہ راستہ اختیار نہ کیا ہو۔ لیکن علاقے کے مسائل کی طویل فہرست اور حکومتی عدم توجہ کی بنا پرمشکلات کم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ اور زندگی روز بروز تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ اپر چترال کے نام پر بننے والی نئی ڈسٹرکٹ نے کوشٹ جیسے پسماندہ علاقوں کو اور بھی لاوارث بنا دیا ہے۔ کیونکہ یہ ڈسٹرکٹ فی الحال صرف نام پر ہی چل رہا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈ تو دور کی بات خود انتظامی اداروں کو چلانے کیلئے مناسب فنڈ دستیاب نہیں۔ اس لئے اپر ڈسٹرکٹ کے ہیڈ کوارٹر کے مضافات میں شامل علاقوں کی حالت قابل رحم ہے۔ چترال پریس کلب نے حسب روایت اس مرتبہ مشکلات سے دوچار علاقہ کوشٹ کے مسائل کو اُجاگر کرنے کیلئے یہاں پریس فورم کا انعقاد کیا۔ جس میں علاقے کے سیاسی نمایندگان اور عمائدین نے مسائل کے انبار لگا دیے۔ مسائل کی اگرچہ طویل فہرست موجود ہے۔ لیکن اکیسویں صدی کے موجودہ ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کے جدید دور میں علاقے میں موبائل کی سہولت کی عدم دستیابی اور بعض مقامات میں ناقص سروس نے وہ مسائل پیدا کئے ہیں۔ جس نے کوشٹ میں بسنے والے مردوخواتین، طلبہ و اساتذہ، بیمارو صحتمند، مسافر سے لے کر ڈرائیور،اور ملازم سے لے کر کاروبار کرنے والے تک سب کو متاثر کیا ہے۔ اس حوالے سے کوشٹ کے سماجی و ادبی شخصیت محمد یعقوب مصروف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا۔ کہ ناقص ناقص موبائل سروس کی وجہ سے لوگوں خصوصا کالج و یونیورسٹی میں آن لائن کلاسیں لینے والے طلبہ کو انتہائی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا۔ سروس نہ ہونے کے باعث لوگ اب بھی اپنے کام اور رشتے داروں و پیاروں سے بات کرنے کیلئے طویل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ یونیورسٹیوں کے طلبہ میلوں سفر کرکے نیٹ کی رینج میں رات 12بجے تک آن لائن کلاسیں لیتے ہیں۔ اور راتوں کو پُر خطر راستوں سے ہوتے ہوئے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ موجودہ ٹاورجہاں نصب کئے گئے ہیں۔ اُن سے کوشٹ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ انہوں نے متعلقہ موبائل کمپنیوں اور حکومت سے مطالبہ کیا۔ کہ موبائل سروس کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ اور 3;71;،4;71;کی سہولت فراہم کئے جائیں۔ سابق یو سی، وی ممبر تور کوشٹ حکیم محمد نے کہا۔ کہ گاؤں شینجور آن کے ساٹھ گھرانے بجلی کے ناقص انتظام کی وجہ سے روشنی سے یکسر محروم ہیں۔ بجلی نہ ہونے کے سبب تمام ملکی حالات سے بے خبر رہتے ہیں۔ ہر سال سردیوں کے آغاز میں ظالمانہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف تحفط حقوق اپر چترال تنظیم کے پلیٹ فارم سے احتجاج بلند ہوتی ہے۔ اور کئی بار احتجاج کے بعد مارچ، اپریل کے مہینے میں بجلی کی حالت تھوڑی بہتر ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو کوشٹ کے ساتھ بجلی کے حوالے سے امتیازی سلوک ہے۔ جبکہ دوسری وجہ یہ ہے۔ کہ مین ٹرانسمیشن لائن کو دور دراز کے پہاڑوں اور سلائڈنگ ایریا سے گزار کر کوشٹ تک لایا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے سردیوں میں ی بارش اور برفباری میں یہ لائن متاثر ہوتی ہے۔ اس لئے مطالبہ ہے۔ کہ کوشٹ کو متبادل الائمنٹ کے ذریعے کوراغ سے بمباغ کے راستے بجلی فراہم کی جائے۔ تاکہ سردیوں میں سلائڈنگ کی وجہ سے بجلی کی سپلائی متاثر نہ ہو۔ شجاع احمد لال نے کہا۔ کہ 2015کے سیلاب نے کوشٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ پانچ سال گزرنے کے باوجود وہ زخم مندمل نہیں ہوئے۔ کوشٹ رابطے کا واحد پُل اور سڑک سیلاب برد ہوا۔ اور کوشٹ کی وسیع زرعی زمین بھی سیلابی کٹاو کے باعث سلائڈنگ ایریا میں تبدیل ہوا۔ چودہ گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے۔ سینکڑوں کنال زمین، باغات کٹاؤ کا شکار ہوئے۔ لیکن پانچ سال گزرنے کے باوجود پُل کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی۔ پُل سیلاب برد ہونے کے بعد آٹھ مہینوں تک لوگوں اور طلبہ کو طویل سفر کرکے سکول و کالج اور یونیورسٹیوں کیلئے جانا پڑا۔ اور اس سفر میں غریب لوگوں کو بھاری اضافی کرایوں کا کا بوجھ برداشت کرنا پڑا۔ سیلاب سے جتنے نقصانات ہوئے۔ اُن کے مقابلے میں بحالی فنڈ انتہائی کم دی گئی۔ جس سے علاقے کے مسائل حل نہ ہو سکے۔ آج بھی یہ مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا۔ کہ کوشٹ کا وسیع ایریا جو سیلابی کٹاؤ کی وجہ سے سلائڈنگ ایریا میں تبدیل ہوچکا ہے۔ 900فٹ حفاظتی بند تعمیر کیا جائے۔ تاکہ مزید نقصانات سے بچا جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا۔ کہ حکومت وسائل ہونے کے باوجود اُن کی مشکلات کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔ ریٹائرڈ ٹیچر محمد شریف خان نے کوشٹ روڈ کی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہا۔ کہ سابق ممبر تحصیل کونسل کوشٹ انعام اللہ کے کہنے پر روڈ کی توسیع و کشادگی کی گئی۔ لوگوں نے اُن کی یقین دھانی پر اعتبار کرتے ہوئے بے رحمانہ طور پر زمینات اور پھلدار درختوں کی کٹائی کرکے سڑک تعمیر کرنے پر کوئی مزاحمت نہیں کی۔ لیکن افسوس کا مقام ہے۔ کہ جن کی زمینات اور پھلدار درخت روڈ میں کام آئے۔ ابھی تک اُن کو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔ مستہزاد یہ کہ یہ کچی سڑک ماحولیاتی آلودگی کا کارخانہ بن گیا ہے۔ سارا دن گاڑیوں کے گزرنے سے اُڑتی دھول اور گردو غبار میں لوگ انتہائی تکلیف میں وقت گزار نے پر مجبور ہیں۔ اور بڑی تعداد میں لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا۔ کہ فوری طور پر زمین اور درختوں کے مالکان کو معاوضہ ادا کیا جائے۔ اور سڑک کو پختہ کرکے ماحولیاتی آلودگی سے نجات دلای جائے۔ انہوں نے کوشٹ میں پینے کے پانی کے مسائل بیان کرتے ہوئے کہا۔ کہ علاقے میں پانی کی کوئی کمی نہیں۔ لیکن تقسیم کے ناقص نظام اور گھروں کے اندر نلکوں کی تنصیب سے پانی ضائع ہو رہاہے۔ جس سے بعض گھرانے پانی سے محروم رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ نلکے گھروں سے باہر لگائے جائیں۔ بصورت دیگر خدشہ ہے۔ کہ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم سے تصادم کی نوبت آسکتی ہے۔ نوجوان سیاسی اور سماجی رہنما عبداللہ نے پریس فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ کہ 2015کا سیلاب جہاں کوشٹ پُل کو بہا لے گیا۔ وہاں گہت لشٹ پُل بھی سیلاب برد ہو گیا۔ یہ پندرہ چھوٹے بڑے دیہات کا مین چترال بونی روڈ سے رابطے کا واحد پُل تھا۔ اس پُل کی سیلاب بردگی سے مقامی لوگوں کی آمدور رفت اور سکول و کالج کے طلبہ کی تعلیم بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ مریضوں کی ہسپتالوں تک رسائی ناممکن ہو چکی ہے۔ خصوصا ڈیلیوری کیسز کی حامل خواتین کی بروقت ہسپتالوں تک رسائی ممکن نہ ہونے کے سبب جانی خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے حکومت سے پُر زور مطالبہ ہے۔ کہ اس پُل کی تعمیر کو ممکن بنا کر لوگوں خصوصا طلبہ کو سفری مشکلات سے نجات دلائی جائے۔ انہوں نے کہا۔ کہ ایم این اے مولانا عبد الاکبر چترالی نے اپر چترال گرڈ سٹیشن کی تنصیب کیلئے سولہ کروڑ روپے اور کوشٹ روڈ کی بلیک ٹاپنگ کیلئے پانچ کروڑ کا اعلان کیا تھا۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے۔ کہ ابھی تک کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ انہوں نے مطالبہ کیا۔ کہ ایم این اے مولانا عبدالاکبر ا پنے وعدے کا پاس رکھتے ہوئے گرڈ اسٹیشن اور روڈ کی تعمیر کو ممکن بنائیں۔ سابق ممبر تحصیل کونسل کوشٹ انعام اللہ نے کہا۔ کہ 2015 سیلاب نے ہمارے پلوں، سڑکوں اور زمینات کو ہی برباد نہیں کیا۔ بلکہ ہمارے عظیم بھائی بلبل ایوبی اور فدا حسین کو بھی ہم سے جدا کردیا۔ جو عارضی پل کی تعمیر کے دوران پل ٹوٹ جانے سے دریا میں گر کر جان بحق ہوئے۔ حادثے کے وہ مناظر اب بھی ہ میں اُداس کردیتی ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ موردیر پُل خستہ حالی کا شکار ہے۔ چرون زوندرانگرام روڈ کی حالت بھی ناقابل بیان ہے۔ شوگرام، گہت لشٹ پل سب ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں۔ یا سیلاب برد ہو چکے ہیں۔ اور یوسی کوشٹ کے تمام لوگ محصور بن انتہائی مشکل میں زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومتی عدم توجہی اور بے حسی نے انہیں حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن برداشت اور صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر لوئر چترال اور ڈی سی اپر چترال سے مطالبہ کیا۔ کہ حکومت اگر خود کچھ نہیں کر سکتی،تومختلف این جی اوز کو یہاں کام کرنے پر آمادہ کرے۔ انہوں نے اس سے قبل علاقے کیلئے خدمات انجام دینے پر آغا خان رورل سپورٹ پروگرام، سرحد رورل سپورٹ پروگرام،ورلڈ فوڈ پروگرام اور ایکٹیڈ کا شکریہ ادا کیا۔ اور علاقے کے مسائل حل کرنے کیلئے مزید ترقیاتی منصوبوں پر کام کا مطالبہ کیا۔ خصوصابمباغ نہر کی تعمیر کو مستقل بنیاوں پر ممکن بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انعام اللہ نے لینڈ سٹلمنٹ کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ کہ اس ادارے نے کئی نئے مسائل پیدا کئے ہیں۔ لوگ پہلے ہی سے پریشان ہیں۔ اب مزید تنازعات پیدا کرکے لوگوں کو الجھایا جا رہا ہے۔ جو کہ ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے اپر چترال ڈسٹرکٹ کو ایک کاغذی ڈسٹرکٹ قرار دیتے ہوئے کہا۔ کہ نئے ڈسٹرکٹ کے قیام سے مسائل بڑھ گئے ہیں کم نہیں ہوئے۔ خصوصا ایندھن کے لئے سوختنی لکڑی اور تعمیرات کیلئے عمارتی لکڑی کے حصول کی راہ میں مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ صرف ڈپٹی کمشنر آفس کے قیام سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ مناسب فنڈ فراہم کرکے ڈسٹرکٹ کو اپنے پاوں پر کھڑا کیا جائے۔ انہوں نے کہا۔ اگر یہ واقعی اپر چترال ضلع ہے تو اس کیلئے الگ گرڈ سٹیشن اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال تعمیر کیا جائے۔ موجودہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں کوئی سہولت دستیاب نہیں۔ مریض پرائیوٹ ہسپتال میں علاج کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے محکمہ ایجوکیشن سے گرلزہائی سکول میں غیر مقامی اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے، سکول میں سائنس ٹیچر کے تقرر اور ہائیر ایجوکیشن سے کالج کے طلباء و طالبات کی آمدو رفت کیلئے کوشٹ پل تک کالج بسوں کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔ پریس فورم میں تمام حاضرین نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا۔ کہ تحصیل کونسل موڑکہو کے دفاتر بمباغ میں قائم کئے جائیں۔ سوشل ایکٹی وسٹ اعجاز الرحمن نے مقامی پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ کہ کوشٹ کا علاقہ منشیات کا اڈہ بن گیا ہے۔ کوئی پُرسان حال نہیں۔ نوجوان منشیات میں دھنستے جارہے ہیں۔ پولیس کے پاس وسائل نہیں یا وہ منشیات فروشوں کی پُشت پناہی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ سپورٹس گراونڈ سیلاب برد ہونے کے بعد منشیات میں اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ نوجوانوں کے پس تفریح کیلئے سپورٹس کے مواقع نہیں ہیں۔ انہوں نے کوشٹ بوائز ہائی سکول میں 350طلبہ کیلئے صرف دو واش رومز کی دستیابی پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا۔ اور فوری طور پر مزید واش رومز تعمیر کر نے، گرلز پرائمری سکول موڑ کوشٹ کو اپگریڈ کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کوشٹ میں سولر سسٹم کے ذریعے پانی کی فراہمی کو ممکن بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔