چترال (نما یندہ چترال میل) ممبر صوبائی اسمبلی چترال مولانا ہدایت الرحمن نے منگل کے روز گولین گول واٹر سپلائی سکیم کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر جنرل سیکرٹری جے یو آئی چترال انعام اللہ میمن، پشاور پائپ اینڈ کنسٹرکشن کمپنی کے سی ای او حاجی محبوب اعظم، محکمہ پبلک ہیلتھ کے ایس ڈی او و دیگر اسٹاف موجود تھے۔ یہ واٹر سپلائی سکیم گذشتہ سال سیلاب میں دریا برد ہو گیاتھا۔ جس کے بعد چترال شہر میں لوگوں کو پینے کے پانی کا شدید مسئلہ درپیش ہے۔ ایم پی اے نے چترال شہر اور ملحقہ دیہات پر مشتمل ساٹھ ہزار کی آبادی کے اس اہم منصوبے کے کام کی رفتار اور معیار کو دیکھا اور مختلف مقامات پرسیلاب سے پائپ لائن کو نقصان پہنچنے کے بعد متبادل سائڈ پر اس کی تعمیر کا جائزہ لیا۔نیز پائپ لائن کے سورس کو مستقبل میں سیلاب کے ممکنہ خطرات سے بچانے کیلئے محکمہ پبلک ہیلتھ کے ڈیزائن اور منصوبہ بندی کا جائزہ لیا۔ اور خطاب کرتے ہوئے کہا۔ کہ گولین واٹر سپلائی سکیم حکومت کا چترال شہر کیلئے ایک اہم پراجیکٹ تھا۔ لیکن افسوس کا مقام ہے۔ کہ ابتدا میں اس کا ڈیزائن انتہائی ناقص تیار کیا گیا۔ جس کی وجہ سے کروڑوں روپے کا یہ پراجیکٹ چند سال بھی کام نہ دے سکا۔ اور گذشتہ سال کے سیلاب میں بری طرح تباہ ہوا۔ نتیجتا چترال شہر کی آبادی پینے کے پانی کی مشکلات سے دوچار ہے۔ اگر اس منصوبے کا ابتدائی ڈیزائن علاقے کی ساخت اور ماحول کے مطابق تعمیر کیا جاتا۔ تو لوگوں کو پینے کے پانی کے سلسلے میں اس قسم کے مشکلات سامنا نہ کرنا پڑتا۔ تاہم اب یہ بات خوش آیند ہے۔ کہ موجودہ ڈیزائن میں ان تمام خدشات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اور تعمیراتی کام اطمینان بخش طریقے سے جاری ہے۔ جس سے یہ امید رکھی جا سکتی ہے۔ کہ آیندہ بڑے پیمانے پر نقصانات نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کمپنی اور ادارے کو خبردار کیا۔ کہ کام کے معیار میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ہمیں عوام کی زندگی سب سے عزیز ہے۔ اور عوام کو مشکلات سے دوچار کرنا ناقابل برداشت ہے۔ ایم پی اے نے محکمہ پبلک ہیلتھ اور کمپنی کو ہدایت کی۔ کہ وہ دن رات کام کرکے پائپ لائن کو بحال کرنے کی کوشش کریں۔ اس موقع پر کمپنی کے سی ای او محبوب اعظم نے کہا۔ کہ پائپ کے معیار و مقدار اور تنصیب میں کوئی کمپرومائز نہیں کیا گیا ہے۔اور ادارے کے ڈیزائن کے مطابق جہاں پہاڑی تودے اور پتھر گرنے کے خدشات ہیں۔ وہاں پی سی سی پیرٹ وال تعمیر کرکے انہیں محفوظ بنایا گیا ہے۔ زیادہ تر ایریامیں پائپ لائن کا رخ تبدیل کرکے زیادہ محفوظ سائڈ پر ڈالا گیا ہے۔ بعض مقامات پر پائپ کی خاطر سڑک کی چوڑائی پر بھی کام کیا گیا ہے۔سورس کو سیلاب سے بچانے کیلئے پی سی سی حفاظتی بند تعمیر کی جارہی ہے۔ پائپ لائن کا بڑا حصہ بچھا یا گیا ہے۔ صرف 880 فٹ پائپ کی تنصیب کا کام باقی ہے۔ انشا اللہ یہ کام مکمل کرکے بیس دنوں کے اندر چترال شہر کو پانی سپلائی کی جائے گی۔ پبلک ہیلتھ انجینئر نے بتایا۔ کہ اس منصوبیکی لاگت 34.4ملین روپے ہے۔ جس میں جملہ کام مکمل کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا۔ کہ یہ بات نہایت افسوسناک ہے۔ کہ چترال شہر میں پینے کے صاف پانی کو زراعت سے لے کر واش روم تک استعمال کیا جاتا ہے۔ اور لوگ یہ احساس نہیں کرتے۔ کہ اس پر دوسرے لوگوں کا بھی حق ہے۔ اور اسے دیگر مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئیے۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی پراجیکٹ ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ اس کے فوائد تمام لوگوں تک نہیں پہنچتے۔ انہوں نے کہا۔ کہ چترال شہر کیلئے دس انچ قطر کا پائپ لائن بچھایا گیا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی چھ انچ کے پائپ لائن سے کوہ یوسی کے دیہات کو پانی مہیا کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ عوام اگر پانی صحیح طریقے سے استعمال کریں۔ تو یہ پورے چترال شہر کیلئے کافی ہو گی۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات