داد بیداد۔۔5ارب سے اوپر۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

یہ 5ارب 40کروڑ روپے کا منصو بہ تھا جو سوات، کو ہستا ن، دیر اور چترال کے علا وہ گلگت بلتستان میں بھی سیلا بوں کی روک تھام کے لئے مقا می آبادی کی مدد کے نا م پر منظور ہوا تھا 3سال معرضِ التوا میں رکھنے کے بعد اب اس منصو بے کو ختم کر کے سارا فنڈ وا پس کیا جا رہا ہے یہ مذاق نہیں بلکہ حقیقی زند گی والی کہا نی ہے اور سر پھوڑ نے وا لی حقیقت ہے 5ارب 40کروڑ روپے کا فنڈ اقوام متحدہ کے تر قیا تی پرو گرام (UNDP) نے گرین کلائمنٹ فنڈ (GCF) کی وساطت سے جنو ری 2017ء میں پا کستان کی وزارت مو سمیاتی تغیر کو دیا تھا جنوری 2020ء میں دو نوں بین القوامی اداروں نے سیول جنو بی کوریا میں واقع ایشائی دفتر سے حکومت پا کستان کو لکھا ہے کہ ہم 5ارب 40کروڑ روپے کا فنڈ واپس لے رہے ہیں اگر یہ خبر 2017یا 2016کی ہوتی تو اس کی اتنی اہمیت نہ ہوتی لیکن 2020ء میں اس کی بڑی اہمیت ہے ہماری حکومت کو معا شی میدان میں آزمائشوں کا سامنا ہے وزیر اعظم عمران خان ملک کو معا شی بحران سے نکا لنے کے لئے تگ ودو کر رہے ہیں قرض اور گرانٹ حا صل کر کے پا ئی پا ئی جو ڑ کر خزا نے میں ڈال رہے ہیں عوامی سطح پر غر بت اور بے روز گاری کو کم کرنے پر زور دے رہے ہیں ایسے حا لا ت میں 5ارب 40کروڑ روپے کا عالمی فنڈ پا کستان سے واپس ہو نا انتہائی در جے کی بد قسمتی کے مترا دف ہو گا ہمارے پاس کیا چارہ ہے؟ لے دے کے چترال سے قو می اسمبلی کے ممبر مو لا نا عبد الاکبر چترالی کا نا م یا د آتا ہے شا ید وہ اس مسئلے کو اسمبلی میں اٹھا سکینگے مقا می سطح پر بیار لو کل سپورٹ ارگنائزیشن بو نی (BLSO) نے یہ مسئلہ ضلعی انتظا میہ کے ذریعے اٹھا نے کا عزم ظا ہر کیا ہے مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیا سی مسا ئل قو می تر قی کے اہم امور کی جگہ لی ہوئی ہے یہ 2007 کا واقعہ ہے جنرل مشرف نے سکردو، سوات،دیر، کوہستان اور چترال میں گلیشیر پھٹنے سے ہونے والے سیلا بوں کا جا ئزہ لینے کے لئے ماہرین کی کمیٹی بٹھا ئی کمیٹی نے سائنسی رپورٹ اور ٹیکنکل پیپرز کی تیا ری کے لئے عالمی ادارووں سے رجوع کیا آئی یو سی این (IUCN) نے ما ہرانہ رپورٹ تیا کی گرین کلائمیٹ فنڈ اور یواین ڈی پی کو اعتماد میں لیا گیا 2010ء میں ایک آز مائشی منصو بے پائلِٹ پراجیکٹ کے لئے معا ہدہ ہوا معا ہدے کے تحت 2011ء میں منصو بے پر کام شروع ہوا جن گلیشیر کو فوری توجہ کا متقاضی خیال کیا گیا اُن کے قریبی علا قوں میں آبادی کے اندر آگاہی اور استعداد کاری کے ذریعے مقا می ٹیمیں تیار کی گئیں ان ٹیموں کی مد د سے قریبی علا قوں میں سیلاب کی پیش گوئی کے آلا ت نصب کئے گئے جن کو ارلی وارننگ سسٹم کا نا م دیا جا تا ہے نیز سیلاب سے بچاؤ کے لئے مظبوط پشتے تعمیر کئے گئے اور جو مکا نا ت تعمیرات خطرے کی زد میں آئے ان کو متبادل جگہوں پر منتقل کیا گیا 2015ء میں پائلِٹ منصو بہ مکمل ہوا اس کو معاشرتی، سما جی اور تکنیکی بنیا دوں پر کامیاب قرار دیا گیا اس تجربے کی روشنی میں اگلے منصو بے کا خا کہ تیا ر کیا گیا چنا نچہ جنوری 2017ء میں اگلے منصو بے کی منظوری کے بعد دونوں بین لاقوامی اداروں نے حکومت پا کستان کو گرین سگنل دیدیا مارچ 2017ء میں منصوبے پر کام شروع ہو نا چاہئیے تھا گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کی طرف سے ٹوکن منی اکا ونٹ میں جمع کر کے اکا ونٹ نمبر آگے بھیجدینا تھا گلگت بلتستان نے اپنے حصے کا کام ایک مہینے کے اندر مکمل کیا، خیبر پختونخوا کی حکومت نے 2017کے آخر تک اس معا ملے کو لٹکائے رکھا پھر 2018آگیا یہ انتخا بات کا سال تھا انتخا بات کے بعد نئی حکومتیں آگئیں خوش قسمتی سے صوبے سے لیکر وفاق تک ایک ہی پارٹی کی حکومتیں بن گئیں مزید خوش قسمتی یہ ہے کہ صوبائی وزیر اعلیٰ محمود خان کا تعلق گلیشیر پھٹنے سے آنے والے سیلا بوں کی بد نصیب سر زمین ملا کنڈ ڈویژن سے ہے ان تما م نیک فا لوں کے باوجود مو سمیاتی تغیر یا کلائمیٹ چینج کی وزارت سے آنے والا فنڈ نہیں آیا پراجیکٹ پر کام شروع نہیں ہوا اب مسئلہ یہ ہے کہ یو این ڈی پی والے پرا گریس مانگتے ہیں گرین کلائمیٹ فنڈ کا سیول دفتر بھی پرا گریس مانگتا ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ 5ارب روپے سے اوپر کا فنڈ مفت میں فراہم کرنے والا ادارہ بین لاقوامی سطح پر کسی تر قی پذیر ملک سے آئیں، بائیں،شائیں سننا گوارا نہیں کر تا سیدھا سوال یہ ہے کہ فند کو استعمال کرنا ہے یا نہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو فنڈ واپس کرو اگر یہ بات زرداری یا نواز شریف کی حکومت میں ہوتی تو بڑی بات نہیں تھی عمران خان کی حکومت میں 5ارب 40کروڑ روپے کا فنڈ واپس جا نا بہت بڑی بات ہے یقینا اس میں کرپشن اور کمیشن ما فیا ز کا ہاتھ ہو گا اب اس ہاتھ کو بے نقاب کرنا ہو گا اور فنڈ کو واپس جانے سے روکنا ہو گا