٭ شہربے آب۔
نصف سال ہونے کو آئے ہیں کہ شہر چترال کا نصف سے زیادہ حصہ پینے کے صاف پانی کو ترس رہاہے۔سرکای ادارئے ہیں کہ ان کے کان ”جوں تک نہیں رینگتے“ کیوں کہ وہ سرکاری اسائش مراعات اور فنڈ کے زور پر ”ائنٹی لائیس“ شیمپو استعمال کرتے ہیں اور ”جوں“ جیسے موذی کو قریب آنے نہیں دیتے۔اور ہمارئے منتخب نمائدئے بھی وقتی ” مراعاتی حمام “ میں ٹخنوں تک پاؤں ڈالے ”گولین کے ڈنڈے پانی“ کا نام لیتے ہوئے بھی ٹھنڈے موسم میں ”کپکپی“ محسوس کرتے ہیں۔چترال شہر کے باسی ہیں کہ سات مہینوں سے پانی کے بوند بوند کو ترسنے کے باوجود زمانے کے ”ہیروین چی“ کی طرح خیالوں کے آسمان میں ”نمرود“ کی طرح تیر چلاتے ہوئے دینا مافیا سے بے خبر ہیں۔دو ماہ قبل چترال انتظامیہ پبلک ہلیتھ اور سوشل سوسائٹی کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ایک مہینے کے اندر گولین میں کام کا آغاز ہوگا۔جو تاحال جوں کا توں پڑا ہے جبکہ WSU کے کرم فرما ہر ماہ خالی پائپ رکھنے کی پاداش میں لوگوں سے ”بل کٹاؤ……….. لائین بناؤ“ کا شغل جاری رکھے ہوئے ہیں۔وفد کی شکل میں کئی بار ”پبلک ہلیتھ آفس کا یاترا کیا ہر بار ملبہ ”PDMA“ کے کھاتے میں یہ کہہ کر ڈال دیا جاتا ہے کہ ڈیزاسٹر کے سارے فنڈ PDMA کی مرضی سے خرچ ہوتے ہیں ہم کچھ بھی کرنے کی صلاحیت نہیں ر کھتے۔حیرانگی کی بات یہ ہے ایک ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صارفین کے حقوق کا خیال رکھے کیونکہ وہ اس کے عوض ماہانا بل وصول کر ہا ہے۔اگر PDMA والے رکاوٹ ہیں تو WAPDA نے کیسے مہینے کے اندر بجلی بحال کی یہ رکاوٹ ان کے ہاں بھی آنا چاہیے تھا۔اب سیزن گزر گیا ہے پانی جم چکا ہے اور کام ہونا ممکن نہیں۔ کم از کم ہمارے ادرروں اور نمائیدوں کو اس جانب توجہ دینا چاہیے کہ موسم بہار تک کام شروع ہوسکے تاکہ گرما میں پانی کی کمی کا مسلہ حل ہوسکے۔رہ گئے چترال کے ہیروینچی شہری وہ ”پر نالوں سے ٹپکتے ہوئے بارش کے پانی جمع کرتے اور برف پگلاتے ہوئے ”کوٹاکئی“ میں گرم ہوکے گرم بیانات شوشل میڈیا میں شیر کرتے گرز ہی لینگے۔ہماری گزارش ہوگی کہ وکلاء براداری میں سے کوئی آگے اکر متعلقہ اداروں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاکر ثواب دارین حاصل کرئے۔ ورنہ پاکستانی کلچر میں عدم برداشت کا جو طوفان ”سونامی حکومت“ میں کچھ زیادہ تیزی سے چلنے لگا ہے وہ کئیں بہت کچھ بہا نہ لے جائیں اور ہم یہ کیوں اور کیسے ہوا کا تجزیہ کرتے رہ جائیں۔
٭ وکلاء گردی۔
؎ ژانور سف مہ پوشی سجدا بغانی شکر الہا کی انسان نو ہوتام؛
اجکل وکلاء برادری کا پارا…. دو سو کی نفساتی حد عبور کرچکا ہے۔ ہر جگہ ان ہی کا طوطی بول ہی نہیں ”چیخ“ رہا ہے۔جناب ایم آئی خان ایڈوکیٹ کو دیکھ کر ہی ہم پہ ”لرزاں“ طاری ہوتا ہے گزشتہ دلوں باروم کی دیوار سے لگ کر گزر رہا تھا کہ اندر سے ”فاتحانہ“ قہقہے کی بھیانک آواز سنائی دی اور میں بھاگ کر باہر نکلا اور ”جناب نظام الدین ایڈکیٹو چھیرا چوکی“ جان میں جان آئی ایک دو وکلاء جو چھڑی ہاتھ میں لیے آتے ہیں ان کو دیکھ کر دور بہت دور ”کونسل سے پوسٹ آفس سلام مار کر“ خیر سگالی کا مکھن لگا ہی لیتا ہوں۔صرف دو وکیل ایسے ہیں جن سے مانوس ہوچکا ہوں ان میں ایک ارشاد جاوید ایڈوکیٹ ہیں جو ہمارے وکیل ہیں اور تشدد پر یقین نہیں رکھتے دوسرئے جناب نیازی ایڈوکیٹ ہیں جو میسر نہ ہونے کے باوجود ”انسانی حقوق“ کا دم بھرتے رہتے ہیں۔پی ائی سی لاہور میں جو ”موشی گری“ وکلاء نے سر انجام دیا وہ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔کیونکہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ”قائد اعظم“ نکلنا ہی وکلاء کے بائین ہاتھ کا کھیل ہے۔ ہم یہ سمجھ رہے تھے یہ زیادہ طیش می آئے تو زیادہ سے زیادہ یہ کسی کو فائل، پی ایل سی،لاہء بکس اور ڈائیری مار سکتے ہیں۔اور اسی طر ح ہمارے مسیحا بھی پھول، ڈسپرین، پینا ڈول، بہت ہی مہربان ہوں تو ”ڈرئیپ“ مار کر ”Coooool“ ہوسکتے ہیں۔جب وکلاء کے دائیں ہاتھ میں جو جو کمالات و جوہر چھپے ہوئے تھے وہ اب میڈیا کے طفیل سامنے آئے ہیں کہ کس طاقت سے ”اینٹ باری، سنگ باری“ فرما رہے ہیں پل بھر میں ہسپتال کا حلیہ بگاڑنا،گاڑیوں کو آگ لگانا، ڈاکڑوں، تیمار داروں اور مریضوں کو لہو لہاں کرنا۔ ایمر جنسی میں گھس کے مارنا۔دل کے بیماروں کے منہ سے اکسیجن ماسک نکال کر ان کو ”حیات کی قید سے آزاد کراکر ثواب داین حاصل کرنا“ کیا کم اعزاز کی بات ہے۔
؎ لحا ز ہردیو ، ہردیار بغانی پزا ڑانگان کوری وکیلان گیکو:
٭ دل پشوری۔
لوگ جنگ کے دنوں میں ہسپتالوں میں جان بچانے کے لیے پناہ لیتے ہیں کیونکہ کوئی بھی وحشی ہسپتال پر بمباری نہیں کرتا جس طرح رمضان میں روزہ خور بیماری کا بہانہ بناکے ہسپتال میں ڈھیرا ڈال لیتے ہیں۔اسی طرح خواتین، بچوں، بزرگوں اور بزدل لوگوں کو بھی ہسپتالوں کی چھاؤں نصیب ہوتی ہے۔اس عظیم کارنامے پر ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر چہ ان کے خزانے میں چوہے دوڑ رہے ہیں پھر بھی ان کے اکرام کا خاص بندوبست فرمائیں اور جناب اعتزاز احسن سمیت جتنے بھی بڑے وکلاء صاحباں جو جنگل میں لگی آگ پر پانی ڈالنے کی کوشیش کر رہے ہیں ان کے خلاف سخت کاروائی کے احکامات صادر کریں یہ اللہ کا ٖفضل و کرم ہے کہ ہمارے ہاں ہر ”شاخ میں اُلو بیٹھا ہے۔ کشمیر، افغان، ایران، عرب، چین،امریکہ کے حوالے جو عالمی مکار ہمیں نرغے میں لانے کے لیے کوشیش کر رہے ہیں وہاں ہم اور ہمارا میڈیا دو خاندانوں کی پل پل کی خبر سے باخبر رکھنے اور سیاسی ..آتش فشان“ کو اندھن فراہم کرنے کے لیے شام پانچ بجے سے رات بارہ بجے تک دل جمی سے محنت کو اپنا ”فریضہ“ اور سنجیدہ مسائل کی جانب غلطی سے بھی آواز اٹھانے کو”گناہ“ سمجھ رہا ہو اور جس ملک میں ”سونامی“ کو خوشحالی، طوفان بدتمیزی کو تبدیلی، کرپشن، اقربا پروری، نااہلیت کو مدینہ کی ریاست۔حکمت عملی، مصلحت، ناکامی نامرادی، نالایقی کو یوٹرن، بے حوصلہ، نالایق ناہنجار ” غوٹ پانجو “ کو وسیم اکرم پلس اور شیر شاہ سوری کے القابات سے نوازے جائیں تو وہاں وکلاء اساتذہ، ڈاکٹرز، تاجر، طلبہ و طالبات، اندھے بہرئے، بے روز گار ایک دوسرے کے گھر بار، ہاتھ پاؤں اور سر نہ توڑ پھوڑ دیں تو اور کیا شغل فرمائیں؟کیا مدینہ کی ریاست میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے بے روزگاروں کو ایک دوسرے سے ”دل پشوری کی
بھی آزادی نہیں ہونا چاہیے“؟
٭٭٭٭٭٭٭