دھڑکنوں کی زبان۔۔نقار خانے کے کردار۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

انسانوں کے اس معاشرے میں میری کیفیت عجیب ہے۔گونگا،بہرا،اپاہچ۔۔اس لئے کہ نقار خانہ ہے۔ اس میں محبوس ہوں۔۔سوچ رکھا تھا کہ یہ انسانوں کی بستی ہے اس میں دکھ درد مشترک ہونگے۔۔خوشیاں سانجی اور غموں میں بھی سب شریک ہونگے۔۔ہنسی قہقہے اکھٹے ہونگے۔۔بھوک پیاس اگر ستائے گی تو سب کوستائے گی ایسا نہیں کہ ایک کو ٹھنڈی مشروب دوسرا العطش کہتے کہتے خاک کا لقمہ بن جائے۔۔ایک کے سینے میں اُٹھتا ہوادرد سب کو بے چین کرے گا۔ایک کی آنکھوں میں اُتری ہوئی چمک سب کے چہروں پہ پھیل جائے گی۔ہر ایک کے منہ سے شرین سا لفظ نکلے گا۔ہر کوئی ایک دوسرے کی تعریف کرے گا۔لیکن میری دنیا اس وقت برباد سی ہوگئی جب ماں جیسی عظیم ہستی نے مجھے پہلی دفعہ ڈانٹ پلائی اور ایک آدھ دھمکی دی کہ وہ مجھے بوٹی بوٹی کر ڈالے گی۔باپ نے معمولی لغزش پہ زناٹے سے چانٹا رسید کیا۔۔استاذنے مرغا بنایا۔۔پھر میں نے ارد گرد عجیب کیفیت دیکھی۔۔افراتفری۔۔خود غرضی۔۔ہر ایک کو اپنی پڑی ہے۔کوئی کسی کے لئے پیدا ہی نہیں ہوا۔۔ماں بیٹوں میں فرق کرتی ہے۔۔”ڈاکٹر“ اس کا بیٹا ہے۔۔دوسرا مزدور ”ڈق“ ہے۔۔بھائی بھائی سے جدا۔۔ایسی درد بھری داستان سنائے گا کہ آپ کو اس رشتے سے گھن آئے گی۔۔جب تک میں موٹی موٹی کتابیں پڑھنے لگا۔مجھے اپنے آپ سے اور اس معاشرے سے اعتبار اٹھتا گیا۔اخلا ق و کردار کی جو تعریفیں ان کتابوں میں تھیں۔ عملی طورپر کہیں دیکھائی نہیں دیں۔۔ استاذ جو کچھ کہتا ہے بظاہر ایسا نہیں۔۔مولانا ممبر پہ چیختا ہے مگر ممبر سے اُترے تو ایسا نہیں۔۔تبلیغی تبلیغ پہ جائے تو والی کامل ہے واپس آئے تو ایسا نہیں۔سیاسی لیڈر الیکشن کے موسم میں کچھ اور روپ دھار لیتا ہے۔اقتدار حاصل کرنے کے بعد گرگٹ کے رنگ ہیں۔۔آفسر شاہی کا کیا ہے۔انھوں نے محنت کی ہے۔۔موٹی موٹی کتابیں پڑھی ہے۔راتوں کی نیندیں حرام کی ہے۔۔یہ پوسٹ جو ملی ہے کسی کے باپ کی دی ہوئی تھوڑی ہے۔پولیس کے پاس ڈنڈا ہے۔فوج کے پاس سٹیٹس ہے۔سیاست دان کے پاس اقتدار کی کرسی ہے۔آفسر شاہی کے پاس اختیارات ہیں۔اب ان سب میں اتنا فاصلہ ہے کہ آسمان زمین کا۔۔فوج خیر سے اس خاک پاک کا محافظ تو ہے۔۔اللہ ان کو اپنی حفاظت کے سائے میں رکھے۔۔پولیس کہتی ہے کہ وہ جان و مال و آبرو کا محافظ ہے اللہ اس کو توفیق دے۔۔آفسر شاہی کام کرکے معاوضہ لیتا ہے۔۔اس کو اپنے کام سے کام۔۔اب اقتدار کے متوالے ان کی اپنی موج مستی ہے۔ان کے رنگ میں بھنگ ڈالنا کہاں کا انصاف ہے۔۔سینٹ میں سیٹوں کی تعداد کی بات نہیں ہے بات اقتدار کی رنگینیوں کی ہے۔جس کو سانجے وہ صاحب اقتدار جانتا ہے۔۔بازار میں ٹماٹر کی قیمت سے اس کی تجوریوں میں ایک تنکے کا بھی فرق نہیں آئے گا تو پاگل ہے۔۔بیکاری در در کی ٹھوکریں مارتے پھریں۔۔غربت کے اندھیروں میں گرتے پڑتے زندگی کے ناٹک کا حصہ بنیں۔۔ان کا کیا۔۔ ان کی حویلیوں کے اندر روشنی ہے۔۔گولین گو ل میں سیلاب آجائے بجلی کا ساتیاناس ہو۔پینے کا پانی خواب بن جائے۔۔پائپ لاینیں دریا برد ہوں۔خدا کی مخلوق بوند بوند کو ترسیں۔زمینیں بنجر ہو جائیں۔لوگ دھائیاں دیتے رہیں۔۔نقار خانے کے کردار جن کا ذکرہوا اپنی رنگینیوں میں کسی کو نہ سن سکیں۔۔نوجوان خود گھروں سے نکلیں اور بے سرو سامانی میں پائپوں کی مرمت کرتے ہوئے دریا برد ہو جائیں۔زندگی نام کے اس عذاب سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں۔نقارخانے کے کردار خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں۔لاشیں اٹھنے تک کسی کو پتہ نہ ہو۔۔1122 بھی چار گھنٹے بعد پہنچے۔انتظامیہ کی مصروفیات ان کو اجازت نہ دیں۔۔نمائندوں کی شیڈول ٹف ہوں۔لاش سڑک پہ پڑی رہے۔۔اس منظر نامے کو دل والو خود ہی کوئی نام دو۔۔میں سب کچھ کہوں تو دنیا کہتی ہے۔۔فضول میں آنسو نہ بہا بکواس نہ کر۔۔تمہارے اپنے اوقات ہیں۔۔اپنی چادر ہے۔نقار خانے کے کرداروں میں فاصلہ مٹانا تمہارے بس کی بات نہیں۔دنیاسچ کہتی ہے۔نہ تم اس نقار خانے میں داخل ہو سکتے ہو یہ اس کا کردار بن سکتے ہو۔۔تم اس چاردیواری سے باہر بے کس و بے بس بنجارہ ہو۔دھائی دیتے رہو۔۔نقار خانے کی چاروں دیواریں بہت مضبوط اور محفوظ ہیں۔اور آگے اسکے اندرکے کردار بھی ماہرفنکارہیں۔۔فنکاروں کے اس جھرمٹ میں تم تماشائی تک بننے کی اہلیت نہیں رکھتے۔نقار خانے کے یہ کردار ابتدائے افرینش سے موجود ہیں اور شائد اس عالم ہستی کے خاتمے تک برقرار رہیں۔۔اگر تم میں سکت ہے تواس چاردیواری سے سر ٹکراؤ۔اگر یہ چار دیواری ٹوٹ گئی تو دنیا جنت بن جائے گی۔۔فخر موجوداتﷺ نے اس کو جنت بنا کے انسانیت کو دیکھا دی۔۔پھر آپ ﷺ کے پیروکاروں نے نقار خانے کے کرداروں کومٹا دیا ۔۔معیار اور مثال قائم کی۔۔اب یہ خواب لگتے ہیں۔۔لیکن رب سنتا ہے۔۔معیار، خلوص اور قربانیوں کو دیکھتا ہے۔۔ پرکھتا ہے اور سخت مشکل امتحان میں ڈالنے کے بعد کامیاب کرتا ہے۔۔۔اللہ رحیم بہت ہے۔۔وہ موری پائین میں تڑپتی اس ماں کے حالت زار سے واقف ہے۔۔