داد بیداد۔۔دو عجائب گھروں کا فاصلہ۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

دو عجائب گھر اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں مین بن گئے۔ایک ہی دن، ایک ہی وقت پر دونوں کا افتتاح ہوا اور خبر آگئی کہ افتتاح کے دن اور وقت کا ایک ہونا محض اتفاق ہے۔مگر حُسنِ اتفاق سے یہ منصوبے کا حصہ تھا۔پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی جس وقت آئینی اور جمہوری تاریخ کے عجائب گھر کا فیتہ کاٹ رہے تھے اُسی لمحے ہیڈ کوارٹر ز میں آرمی کے چیف آف سٹاف جنرل جاوید قمر باجوہ پاک آرمی کی تاریخ کے عجائب گھر کا افتتاح کرنے کے لئے فیتہ کاٹ رہے تھے۔ دونوں عجائب گھروں کے درمیان افتتاح کے دن کی مماثلت کے علاوہ ایک اور مماثلت بھی ہے اور وہ یہ کہ دونوں عجائب گھروں میں ملک کے عوام، سماجی اور سیاسی کارکنوں،تحقیق کرنے والوں، تاریخ پڑھنے والوں اور تاریخ پر لکھنے والوں کا داخلہ منع ہے۔چاروں طرف پہرہ لگا ہوا ہے۔ سرکاری پروٹوکول کی چیختی چنگاڑتی گاڑیوں کے سوا کسی گاڑی، بائیک یا پیدل کا ان عجائب گھروں کے قریب سے گذرنا محال ہے۔بلکہ اردو محاورے کی رو سے پرندے کو پر مارنے کی اجازت نہیں۔دونوں عجائب گھروں کا فاصلہ 20 یا 22کلومیٹر ہے۔یہ 15فٹ کا راستہ ہے مگر سفر 70 سالوں کا ہے۔لندن کا ریبرٹ اور ویکٹوریا میوزیم دنیا کا مشہور عجائب گھرہے۔اس عجائب گھر میں برطانیہ کی سیاسی،سماجی اور فوجی تاریخ کی تمام نوادرات اور تصاویرایک ہی جگہ دستیاب ہیں۔ دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں ٹکٹ لیتے ہیں اور عجائب گھر کی سیر کرتے ہیں۔ قوم سے، ملک کے لوگوں سے،باہر کے سیاحوں سے چھپانے والی کوئی بات کوئی چیز اس میں نہیں۔مگر ہمارے دونوں عجائب گھروں میں ہمارا داخلہ ممنو ع ہے۔یہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیاں 22کلومیٹر کو جھٹلانے والی بات ہے۔اندازہ ہوتا ہے کہ فاصلہ ہمارے تجربے، انداز ے اور گوگل چچا کے نقشے سے بہت زیادہ ہے۔شاید اتنا فاصلہ ہے جسے ہم عمر بھر بھی نہیں پاٹ سکیں گے۔دونوں عجائب گھروں سے چند تصویریں افتتاح کے موقع پر کیمرے کی زد میں آگئی تھیں جو اخبارات میں شائع ہوئیں۔مجھے وہ تصویر بہت پسند آئی جس میں فیلڈمارشل محمد ایوب خان کو جی ایچ کیو میں گارڈ آف آنر کا معائنہ کرتے ہوئے دکھا یا گیا ہے۔فیلڈ مارشل کے چہرے پر ان کے بلند عزائم کی جھلک نظر آرہی ہے۔فیلڈ مارشل جولائی 1958ء میں مدت ملازمت پوری کرکے پنشن لینے والے تھے انہوں نے مئی 1958ء میں صدر سکندر مرزا سے مدت ملازمت میں توسیع کی بھیک مانگی۔سکندر مرزا نے سگریٹ کی ڈبی کے اوپر نوٹ لکھ کر اپنے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کو دے دی۔ایک سال کی توسیع مل گئی۔اکتوبر 1958ء میں انہوں نے مارشل لاء لگاکر خود کو امر کردیا۔شہاب نامہ میں آیا ہے کہ کہ قومی تاریخ کا دھارا سگریٹ کی ڈبی نے بدل دیا۔ کتنے ایسے دھارے ہونگے جواسی طرح بدلتے ہوں گے۔پارلیمنٹ ہاؤس کے عجائب گھر سے بھی ایک تصویر باہر آگئی ہے۔یہ تصویر 1972ء کی ہے۔پارلیمنٹ کی آئینی کمیٹی بیٹھی ہے محمود علی قصوری، مولانہ شاہ احمد نورانی، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد،عبد الحفیظ پیرزادہ اور دیگر اراکین ایک میز کے گرد بیٹھے ہیں۔ اس طرح کی یادگار تصویریں اور بھی ہوں گی۔مثلاََ جون 1977ء کی تصویر ہوگی جس میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، مولانا کوثر نیازی،اور عبد الحفیظ پیرزادہ میز کے ایک طرف بیٹھے ہونگے۔پاکستان نیشنل الائنس کے لیڈر نوابزادہ نصر اللہ خان،مولانا مفتی محمود اور پروفیسر غٖفور احمد بیٹھے ہیں۔مارشل لاء کا راستہ روکنے پر انتخابی دھاندلیوں کے مسئلے پر آپس میں صلح کی دستاویز تیار کررہے ہیں۔اس طرح کی نادر تصویریں اور نوادرات دونوں عجائب گھروں میں ہونگی۔مگر کسی عام پاکستانی کا اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔