ظفر احمد ایک لیجنڈ فٹ بالر
انسان کی شخصیت میں کوئی نہ کوئی پہلو ایسا نمایان ہوتا ہے۔کہ اس کو امر بناتا ہے۔فارسی میں ایک قول ہے کہ”کسب کمال کن کہ عزیز جہان شوی“کسب میں کوئی برائی اچھائی نہیں اس میں کمال کرنے سے انسان دور کی ضرورت بن جاتا ہے۔کھیلوں کی دنیا بھی عجیب لیکن عارضی دنیا ہے۔۔اس کا تعلق جوانی سے ہے۔ جسمانی صحت اور تندرستی سے ہے۔ڈھلتی عمر کے ساتھ یہ سپرٹ ختم ہوجاتا ہے اور انسان جیتے جی تاریخ بن جاتا ہے۔تورکھو کے دور افتادہ گاؤں اُجنوکا نوجوان ظفر احمد فٹ بال کی دنیا کا بڑا نام تھا۔آپ کی پیدائش انسٹھ سال پہلے موضع اُجنو کے ایک کھاتے پیتے خاندان میں ہوئی۔آپ میر زمان خان کے اکلوتے بیٹے تھے۔آپکا دادا پر دادا حکمرانان ریاست کے درباروں میں رسوخ رکھتے تھے۔آپ کے تایا جی سید آمان خان ریاستی باڈی گارڈ میں حوالدار میجر کے عہدے ہر فائز تھے۔سید آمان خان حوالدار اپنی سخن فہمی،بذلہ سنجی،ظرافت،سخاوت، مہمان نوازی،مجلسی آداب اور رحم دلی میں مشہور تھے۔آ پ کاانداز گفتگو بہت سلیس،شرین اور ٹیکسالی ہوتی تھی۔سید آمان خان ایک دور کے حوالہ تھے۔ظفر احمد خان نے گاؤں کے سکول سے پرائمری پڑھا پھر پشاور چلا گیا۔غم روزگار نے تعلیم کی راہیں مسدود کر دیا۔مختلف ہنر سیکھے اور گھر کے اخراجات پورا کرتے رہے۔۔ساتھ ساتھ فٹ بال کے شوق نے بہت کم عمری ہی میں اس کو ایک بے مثال فٹ بالر بنا دیا۔آپ نے علاقائی ٹیموں سے اپنے کھیل کا آغاز کیا۔جس ٹیم میں ہوتے اس کی جیت لازمی ہوتی۔۔آپ ایک گول ضرور سکور کرتے۔۔لوگ اس کو”ظفر کا سکور“ کہتے تھے۔ظفر احمد لمبوترے اور چھریرے بدن کے مالک تھے۔ان کاکھیل بے مثال تھا۔وہ جادوئی ڈاجر تھے۔مخالف کھیلاڑی حیران رہ جاتے۔ان کے مقابلے میں دو چار کھیلاڑی دیوار بننے کی کوشش کرتے مگر ٹکتے نہ تھے۔وہ درمیان میں سے چھلاؤے کی طرح نکلتا اور سکور کرکے اپنا ہدف حاصل کرتا۔ظفر احمد نے ایف سی جائین کیا۔۔پاکستان ٹیم میں سلیکشن ہوئی۔انھوں نے کئی کامیابیاں اپنے نام کر لی۔ظفر احمد حوصلہ ہارتے نہ تھے۔ساتھی کھیلاڑیوں کی ڈھارس بندھاتے اور آخری لمحے تک پر عزم رہتے۔ اس کا کھیل دیدنی ہوتا۔وہ مہذب کھیلاڑی تصور ہوتے۔وہ اپنی شرافت سے مخالف کھیلاڑیوں کو جیت جاتے۔ان کے سامنے سب ہار جاتے۔کیونکہ وہ شرافت سے سب کو جیت جاتے۔ظفر کی زندگی شان سے گزری۔اس کی کرشماتی شخصیت تھی۔۔وہ کئی دلوں کی دھڑکن ہوا کرتے۔وہ ہنس مکھ اور بذلہ سنج واقع ہوئے تھے۔وہ یار باش اور مونس تھے۔اُنہوں نے صحت کی خرابی کی وجہ سے سرکاری نوکریاں چھوڑ دی اور سعودی عرب چلے گئے۔وہاں انہوں نے محنت سے اپنا گھرانہ سنبھال لیا۔اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوائی۔ان کے چار بیٹے انہی پہ گئے اور مرد میدان رہے۔فرید نثار ایڈوکیٹ اچھے اور سلجھے ہوئے ایڈوکیٹ ہیں۔ڈھلتی عمر نے اس کو گھر بیٹھا دیا ہے مگر گاؤں میں وہ دوسروں کو خوش رکھنے، مسائل حل کرنے،اور ٹنشن دور کرنے میں لگے رہتے ہیں۔اس کو لڑائی جھگڑے،دنگا فساد اور بے سکونی سے سخت نفرت ہے۔۔وہ دوسروں کے لئے قربانی دینے کے قائل ہیں۔وہ کبھی کسی کو ناراض نہیں کرتے۔ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔اس سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں ہوئی۔وہ گاؤں کے مسائل میں الجھتے نہیں ہیں۔ظفر احمد محفلوں کی جان تصور ہوتے ہیں۔وہ ننگ و ناموس کے بندے ہیں۔ان کو رشتوں ناتوں کاپاس لحاظ ہے۔وہ بڑوں کے احترام اور چھوٹوں پہ شفقت کے قائل ہیں۔۔کھیل کے میدانوں میں نوجوانوں کی تربیت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔کھیلاڑیوں میں آپ کا بڑا مقام اور احترام ہے۔ظفر احمد بڑے محنتی ہیں۔گھر گرستی میں نظم و ضبط کے قائل ہیں۔۔۔ظفر احمد ایک نمایان نام ہیں ایک عہد،ایک حوالہ،ایک تاریخ۔۔ ایسے لوگ عرصے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ان کے نام کے ساتھ ان کے کام کو زندہ رہنا چاہیے۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات