مرحوم ”دکانچی میکی“چترال کامشتاق احمد یوسفی دھڑکنوں کی زبان۔ محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

مرحوم ”دکانچی میکی“چترال کامشتاق احمد یوسفی دھڑکنوں کی زبان۔ محمد جاوید حیات
مرحوم ”دکانچی میکی“چترال کامشتاق احمد یوسفی
”بچھو کا کاٹا روتا ہے سانپ کا کاٹا سوتا ہے انشا جی کا کاٹا روتے میں مسکراتا ہے“ یہ مشہور مزاح نگار انشا جی کے بارے میں ایک نقاط کی رائے ہے۔چترال میں کئی انشا جی اٹھے۔کئی مشتاق احمد یو سفی پیدا ہوئے مگر ان کی باتوں کی حلاوتیں نہ تحریروں میں محفوظ ہوئیں نہ کسی کی یادوں میں موجزن رہیں یہی ناقدری عالم کا صلہ ہے۔افتاد عالم کہ خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہان ہو گئیں۔شیر حبیب لال جو”دکانچی میکی“ کے نام سے مشہور تھے صیحح معنوں میں چترال کے مشتاق احمد یوسفی،جسٹس کیانی،پطرس بخاری،فرحت اللہ بیگ،شوکت تھانوی اور مختار مسعود تھے۔اگر آپ کی باتیں لکھی جاتیں۔آپ کی آواز محفوظ کی جاتی تو کھوار ادب میں بذلہ سنجی،سخنوری،شگفتہ بیانی،کاٹ اور مزاح کے حوالے ہو تے۔۔شیر حبیب لال آج سے بانوے سال پہلے قوم رضا خیل کے مشہور جنگجو پہلوان روشن علی خان کے خاندان میں احمد جان کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ روشن علی خان کے پڑپوتے تھے۔۔تورکھو ریچ کے موضع نوغور میں آپ کی پیدائش ہوئی۔آپ اپنے پانچ بھائیوں میں منجھلے تھے۔بچپن ریچ میں گزرا۔بڑے خاندان کے چشم و چراغ تھے۔خاندانی روایات کے مطابق شکار،باز پروری،چوگان بازی،تیراکی وغیرہ سیکھی۔اُجنو میں آپ کی شادی ہوئی۔ جب صاحب اولاد ہوئے تو اپنے آبائی گاؤں ریچ چھوڑ کر موڑکھو وریجون میں اپنے پدری گھر سانگلاندور میں منتقل ہوگئے۔آپ کااکلوتا بیٹا محمد حبیب جو کہ ہیڈ ماسٹر ہیں اپنے زمانے کے مانے ہوئے فٹ بالرتھے۔۔محمد حبیب کھیلوں کی دنیا کے باد شاہ تھے اور آداب محفل،طرز گفتگو،موقع شناسی،مردم شناسی اور شگفتہ بیانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔دکانچی میکی کی سخنوری اور بزلہ سنجی بہت مشہور تھی۔آپ کے منہ سے پھو ل جھڑتے تھے۔آپ عام گفتگو کو اتنا شگفتہ بناتے تھے کہ سننے والا قہقہہ مار کے ڈھیر ہوجاتے۔۔محلے میں کوئی نئی بات ہوتی تو لوگ انتظار کرتے کہ دکانچی میکی نے اس کے بارے میں کیا کہا ہے۔اور جو کہا ہے وہ مزاح کا شاہکار ہے اور زبان زد عام ہے۔دکانچی میکی وسیع دستر خوان اور کثیر الاحباب تھے۔خاندانی روایات کا پابند،حویلی میں خادماؤں سے لے کر اولاد تک ایک ضبط کے پابند۔ایک انداز،ایک ادا،ایک شگفتگی،شرافت،اخلا ق اور تہذیب کا گڑھ۔۔مہمان آئے۔۔چائے آئی۔۔دستر خوان بچھا۔۔کھانا آیا۔خوش گپیاں ہوئیں۔قہقہے اٹھے۔مسکراہٹیں پھیلیں۔شرکا ئے محفل خظ اُٹھا اُٹھا کے اُٹھے۔یہ روز کا معمول۔دکانچی میکی ہمہ وقت شمع محفل۔میکی کاچہرہ ہمیشہ مسکراہٹ سے تمتما اُٹھتا۔آپ نے کبھی کسی سائل کو ٹکرایا نہیں۔کبھی کسی کادل دکھایا نہیں۔وسیع جائیداد۔۔ہر کوئی اپنی ضرورت پوری کرتے۔فصلوں کی پیداوار،پھل، خشک لکڑیاں،گھاس پوس سب میں ارد گرد کے ضرورت مندوں کا حصہ ہوتا۔آپ کی وسیع القلبی مثالی تھی آپ کے ہاں سے کوئی سائل خالی نہیں جاتا۔میکی فارسی شناس تھے۔تاریخی حولاجات ازبر تھے۔لطیفوں کا ایک خزانہ ساتھ تھا۔تورکھو جنم بونی تھا اس لئے ٹیکسالی کھوار تھی۔اس لئے جب بات کرتے تو سننے والاعش عش کر اٹھتا۔آپ یوں کہ عام بول چال میں شاعری کرتے۔لفظوں میں مٹھاس ہوتی اور ادائیگی میں عضب کی سخنوری ہوتی۔آپ کے سامنے کوئی بات کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ بلکہ کلیجہ پکڑ کر قہقہا لگاتے رہتے۔دکانچی میکی چترالی تہذیب کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔۔آپ کی انگ انگ سے شرافت ٹپکتی تھی۔آپ کا لفظ لفظ ایک ریفرنس تھا۔آپ صاف گو،شفاف طبیعت،خا لص سوچ کے مالک اور نیک نیت تھے۔۔ہمدرد و غم خوار تھے۔مرنجان و مرنج تھے۔افسردگی قریب بھی نہیں پھٹکتی۔خندہ زن تھے اس لئے ہر ایک کیلئے ایک اُمید کاچراغ تھے۔۔بڑے بڑے مسئلے بھی آپکے سامنے پیش کئے جاتے آپ ان سے خوش اسلوبی سے نمٹتے۔صلح جو اور اصلاح پسند تھے۔لوگوں میں خوشیاں بانٹتے۔مونس و غمخوار تھے۔کفیل تھے ضرورت مند وں کی د ل کھو ل کر مدد کرتے۔پرانی چترالی تہذیب کی نشانی تھے۔روایتی لباس کبھی ترک نہیں کی۔نئے دور کی چکا چوند نے اسے کبھی متاثر نہیں کیا۔وہ نئی روایات پرایسی کاٹ کی تنقید کرتے کہ لوگ عش عش کراٹھتے۔ان کا نا م گرامی پورے چترال میں مشہور تھا۔انھوں نے شگفتہ بیانی سے اپنی پہچان بنا لی تھی۔دکانچی میکی ایک دور کا نمائندہ تھے۔ایک زمانے کی یادگار بن کے اس جہان سے رخصت ہوئے۔آ پ کی موت سے ایک دور کااختتام ہوا۔شگفتہ بیانی اور سخنوری کا ایک باب بند ہوا۔خاندانی روایات کاایک امین چل بسا۔محفلوں کی وہ شان اٹھ گئی جس کامتبادل نہیں تھا۔ان کی باتوں سے لوگوں کے افسردہ لہجوں میں اب بھی شگفتگی پھیل جاتی ہے اور مسکراہٹ کی ایک لہر اس کی یاد دلاتی ہے۔دکانچی میکی کے جنازے میں سارا چترال امڈ آیااس سے ثابت ہے کہ وہ ہردل عزیزی کے شاہسوار تھے انھوں نے کبھی انسانیت کو افسردہ نہیں کیا۔یہ اس کی خوش بختی کی دلیل تھی۔وہ لوگوں کو ہنساتا رہا مسکراہٹیں بکھیرتا رہا مگر اپنے پیچھے آنسو چھور گئے۔۔رب معفرت کرے عجب آزاد مردتھا۔۔جو خلا چھوڑ گیا وہ شاید کبھی پر ہو۔۔ہر نفس موت کاذائقہ چکتا ہے یہ میرے رب کا حکم ہے۔اللہ میکی کوکروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایان ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں