صدا بصحرا۔۔تلاش گمشدہ۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

ؔ
اخبارات میں اب تک قومی اسمبلی میں 24مئی کو ہونے والی تقاریر کی جھلکیاں آرہی ہیں ان پر لے دے ہورہی ہے جس نعرے کو کسی نے چنداں اہمیت نہیں دی وہ ایم کیو ایم کا نیا نعرہ ہے”سندھ میں ہوگا کیسے گذارا؟آدھا تمہار ا آدھا ہمارا“ فاروق ستار کیساتھ مل کر عبد الوسیم اور دیگر اراکین اسمبلی نے بار بار یہ نعرہ لگایا فاروق ستار نے مطالبہ کیا کہ ملک میں 19صوبے ہونے چاہیئیں تاکہ محرومیوں کا ازالہ ہو انہوں نے کراچی کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کو ”کاٹا“ یعنی کراچی ایڈمنسٹریٹیو ٹرائل ایریا بنایا گیا ہے جہاں نہ پانی ہے نہ بجلی ہے نہ ٹریفک کا نظام ہے نہ بلدیاتی اداروں کے پاس اختیارات ہیں نہ اظہار رائے کی آزادی ہے کراچی اور حیدر آباد کے جڑواں شہروں میں لوگ حبس کی حالت میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں یہ پہلی بار نہیں کہ ایم کیو ایم نے سندھ کے شہری حصے کو اندرون سندھ کے دیہاتی حصے سے الگ کر کے نیا صوبہ بنانے کا مطالبہ کیاہے ماضی میں اس صوبے کو جناح پور کانام دیا گیا تھا ڈاکٹر فاروق ستار نے ایم کیو ایم کا پرانا نعرہ بھی دہرایا پاکستان ہم نے بنایا پاکستان کو ہم بچائیں گے قومی اسمبلی سے فاٹا ترمیمی بل پاس ہونے کے ساتھ گلگت
بلتستان کو بھی صوبے کی حیثیت د ی گئی ہے ملاکنڈ ڈویژن کی مخصوص حیثیت کو بھی ختم کر دیا گیا ہے چنانچہ گلگت بلتستان میں صوبہ کے خلاف
ہڑتالیں ہورہی ہیں ملاکنڈ ڈویژن میں پاٹاختم ہونے کے خلاف احتجاج ہورہا ہے ملک میں اتفاق سے ان دنوں مذہبی جماعتوں کا الگ انتشار چل رہا ہے 7جماعتوں نے ایم ایم اے بنایا ہے 9جماعتوں نے اس کے خلاف الگ اتحاد بنایا ہے 3جماعتوں نے دونوں کے خلاف اپنا الگ محا ذ قائم کیا ہے قوم پرست جماعتیں 8گروپوں میں بٹی ہوئی ہیں سیکولر ڈیموکریٹک پارٹیوں کے 12گروپ الگ الگ ہو کر جدوجہد کر رہی ہیں بقول مرزا غالب ؎
اک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی
قومی اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں 70سالوں کا ذکر ہر پارلیمانی لیڈر نے اپنی تقریر میں کیا 70سالوں کا عرصہ 1947ء میں قیام پاکستان سے شروع ہوتا ہے اگر 1947ء میں قیام پاکستان کے زمانے کا کوئی اخبار لائبریری سے نکال کر سامنے رکھا جائے، ڈان لیجئے، زمیندار لیجئے، انقلاب اُٹھائیے یا کوئی بھی اخبار اُٹھائیے سول اینڈ ملٹری گزٹ کی فائل اُٹھائیے آپ کو 1946ء اور 1947ء کے اخبارات میں ایک قوم مل جائے گی ”پاکستانی قوم“70 سالوں کے بعد وطن کے درودیوار وہی ہیں وطن کے دشمن اور بد خواہ وہی ہیں وطن کے خلاف سازشیں اور جنگیں وہی ہیں اگر کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی تو وہ قوم ہے جس نے پاکستان بنانے کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کیا تھا اس پر ”تلاش گم شدہ“ کا اشتہار چسپان ہوتا ہوا نظر آتا ہے ہندوستان سے اُن مسلمانوں کے قافلے راستے میں لُٹنے کے بعد پاکستان پہنچ گئے تھے جن مسلمانوں نے پاکستان بنانے کے لئے قربانیاں دی تھیں اس موضوع پر لٹریچر کی کمی نہیں سینکڑوں ناول سندھی، پنجابی اور اردو میں لکھے گئے ہیں افسانوں اور نظموں کا کوئی حساب نہیں تاریخ کا یہ حصہ اسلام آباد کی پہاڑی پر ”پاکستان مانومنٹ“ میں محفوظ کیا گیا ہے اُس وقت مسلمان دو گروہوں میں منقسم تھے دونوں گروہ انگریزوں کی غلامی سے آزادی مانگتے تھے انگریزوں سے آزادی کا مطالبہ کر تے وقت قائد اعظم، مولانا ابو الکلام آزاد اور خان عبد الغفار خان ایک تھے آزادی کے بعد الگ وطن یا متحدہ ہندوستان کے مطالبے پر قائد اعظم کا موقف علی حدہ وطن کے حصول کا تھا ابو لکلام آزاد اور خان عبد الغفار خان متحدہ ہندوستان کے حامی تھے قوم نے قائد اعظم کا ساتھ دیا 1946ء کے انتخابات فیصلہ کن ثابت ہوئے مسلم لیگ کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی اور پاکستان بن گیا 25سال بعد آدھا حصہ ایک ”مکتی
با ہنی“نے علیحدہ کیا 70سال بعد ملک میں 13 مکتی باہنیان مذہب کے نام پر بن چکی ہیں 12 مکتی باہنیاں قومیت کے نام پر وجود میں آچکی ہیں 25مکتی باہنیاں وطن عزیز کے ٹکڑوں پر باہم مشت بگریبان نظر آتی ہیں آج وہ قوم نظر نہیں آتی جس نے پاکستان بنا یا تھاوہ قوم گم ہوچکی ہے ہمیں اُس قوم کو نئے سرے سے تلاش کرنا ہے اس وقت پنجابی، پختون، سندھی، بلوچ، گلگتی سب ایک تھے 70سال پہلے سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، مقلد، غیر مقلدسب ایک تھے 70 سال بعد دشمن ایک ہے ہم 25ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں ہر ٹکڑا مسلح ہے دوسرے ٹکڑے کو مار مار کر ختم کرنے پہ تلا ہوا ہے25مکتی باہنیان اس قوم کی جڑوں کو کاٹنے میں لگی ہوئی ہیں دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم نے ان مکتی باہنیوں کو اچھے دنوں میں اچھے مقاصد کے لئے نیک نیتی کے لئے بنا یا تھا ہر مکتی باہنی پر سرمایہ لگا کر اس کو مسلح کیا تھاآج وہ سب ہمارے گلے پڑ گئی ہیں اس کو ”ففتھ جنریشن وار“ کا نام دے دیں یا کوئی اور نام دے دیں دشمن کا کام ہم نے خود آسان کر دیا ہے”ففتھ جنریشن وار“یا باہمی منافرت کی جنگ میں اگر ہمیں کامیابی حاصل کرنی ہے تو 70سالہ تاریخ میں ریاستی غلطیاں (Institutional Blunders) کا ازالہ کرنا ہوگا سول اور ملٹری کے تعلقات کو سنوارنا ہوگا اس قوم کو واپس لانا ہوگا جس قوم نے70سال پہلے پاکستان بنایا تھا ؎
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے