صدابصحرا۔۔انصاف کی دہائی۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

ؔ
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے ایک برقی پیغام (شارٹ مسیج سروس)کے ذریعے ملنے والے خط کا حوالہ دیا خط ایک وکیل کی طرف سے آیا ہے اور خط میں پاکستان کے شہریوں کو درپیش مشکلات کا تفصیلی بیان ہے مثلََا خط میں لکھا ہے کہ پاکستان کے شہری کی حیثیت سے انہیں پینے کا صاف پانی چاہیئے مفت معیاری تعلیم اور مفت معیاری علاج چاہیئے ملاوٹ سے پاک خوراک چاہیئے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سستا اور معیاری انصاف چاہیئے یہاں تک گننے کے بعدچیف جسٹس نے کہا خط میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن میں یہاں پورے خط کو دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ جو کچھ میں نے وکلاء کی اس مجلس میں کہنا ہے وہ یہ ہے کہ میرا مشن بھی یہی ہے اور اس مشن میں وکلاء کو میرے سپاہی کا کردار ادا کرنا ہوگا۔چیف جسٹس کی تقرر دلپذیر آن لائن سننے کا شرف حاصل ہوا تو یہ جان کر خوشی کی انتہا نہ رہی کہ منصف اعلیٰ کے عزائم بلند ہیں مگروکیل صاحب نے اپنے خط میں تھوڑی سی ڈنڈی ماری ہے۔ انہوں نے تعلیم کے مفت اور معیاری ہونے کی شرط لگائی، علاج کے ساتھ بھی مفت اور معیاری کی شرط لگائی مگر جب انصاف کاذکر آیا تو ”سستا“ کہا یہ ایسا لفظ ہے جو انصاف کے قابل فروخت ہونے کا اشارہ دیتا ہے۔ جو چیز بازار میں بکنے والی نہ ہو اُس پر سستا یا مہنگا ہونے کا لیبل نہیں لگایا جاسکتا اور یہاں ”انصاف کی دہائی“ شروع ہوتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کا مشہور واقعہ ہے۔ جرمن طیاروں نے لندن شہر پر بمباری کی تو وزیر اعظم چرچل نے ریڈیو پرقوم سے خطاب کرنے سے پہلے چیف جسٹس سے بات کی انہوں نے چیف جسٹس سے پوچھا کیا ہماری عدالتیں انصاف کرپائی ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا”ہاں ہماری عدالتوں میں پورا پورا انصاف ہوتا ہے۔ یہ سن کر چرچل نے ریڈیو پرخطاب کا آغاز اس بات سے کیا انہوں نے کہا کہ جرمن طیاروں کی بمباری کے بعد میں نے چیف جسٹس سے معلوم کیا ہے کہ ہماری عدالتیں انصاف سے کام لیتی ہیں اگر چیف جسٹس کی یہ بات درست ہے اور آپ اس کی گواہی دینے کو تیار ہیں تو حوصلہ رکھیں دشمن ہمارابال بیکا نہیں کرسکتا۔ قومیں اُس وقت شکست کھاتی ہیں جب ان کی عدالتوں میں انصاف نہ ہوتا ہو۔ اس باب میں چرچل کو مسلمانوں کے خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کا قول شاید معلوم تھا۔ شاید یہ قول اُن کے مطالعے میں آیا ہوگا۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا ”ایک ملک کفر کے ساتھ باقی رہ سکتا ہے ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتا۔“ چرچل کو شاید یہ بھی معلوم تھا کہ ظلم جو ہے انصاف کی ضد ہے جہاں انصاف نہیں ہوگاوہاں ظلم ہوگا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے شاید ماتحت عدالتوں کے ریکارڈ کی چھان بین کی ہے۔ شاید اعلیٰ عدلیہ کے ریکارڈ کا بھی جائزہ لیا ہے۔ چیف جسٹس کو شاید اس بات کا علم ہم سب سے زیادہ ہے کہ ایک مقدمہ 12سالوں تک کا ز لسٹ میں جگہ نہیں پاتا۔ چیف جسٹس کے علم میں یہ بات بھی ہوگی کہ بھرے بازار میں ہجوم کے سامنے فائر کر کے چار بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے والا ملزم عدالتوں سے اپنی ضمانت بھی کروالیتا ہے۔ پھر بری ہوکر مقتولین کے ورثاء کو بھی قتل کرتا ہے۔ اُجرتی قاتل مقدمہ قتل میں 10بار پکڑا جاتا ہے۔ 10بار رہا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کے علم میں یہ بات بھی ہوگی کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے 2003ء کے مقدمات ایسے پڑے ہیں جن میں صرف دو پیشیاں ہوئی ہیں۔ ان کی تعداد 19لاکھ ہے۔ ایک ایسا مقدمہ بھی ہے جس میں انتخابی عذر داری کی اپیل ہے 2003ء کے بعد ملک میں دو بار بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ مدعی کے حلقے میں اُس کی نشست پر ضمنی انتخابات بھی ہوا۔ مقدمہ اب تک پینڈنگ ہے۔ بلوچستان میں ایک وزیر کی مدت ختم ہونے کے بعد اُس کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا گیا۔ خیبر پختونخوا میں ایک مشیر کے خلاف فیصلہ آیا مگر اپیل کے بعد حکم امتناعی لیکر وزارت پر اُسی طرح براجماں رہا۔ ہوگا۔ مدعی کو اس فیصلے کا کیا فائدہ ہوگا؟ گذشتہ دو سالوں کے اندر فوجی عدالتوں نے جن مجرموں کو سزائے موت دی ان میں سے دو تہائی کے مقدمات 1994ء سے عدالتوں میں زیر سماعت تھے اگر فوجی عدالتیں قائم نہ ہوتیں تو نہ جانے کتنے سال یہ مقدمات زیر سماعت ہی رہتے؟ چیف جسٹس کی تازہ ترین تقریرنے عوام کو حوصلہ دیا ہے مگر ان کا زور مفت علاج اور مفت پانی وغیرہ پرہے۔ انصاف کے لئے مفت کی جگہ ”سستا“ کا لفظ استعمال ہوا۔ اُس پر بھی زور نہیں دیا گیا۔ اگر فوجی عدالت 4 مہینوں میں فیصلہ سناسکتی ہے، اگر قصور میں زینب قتل کیس کا فیصلہ سول عدالت ایک ماہ میں سنا سکتی ہے تو باقی مقدمات کو 20یا 25سالوں تک لٹکائے رکھنا کیا معنی رکھتا ہے۔ انصاف کی دہائی یہ ہے کہ انصاف کدھر ہے؟
مٹ جائیگی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو حشر اب اُٹھا کیوں نہیں دیتے