ؔ
دو ہفتوں کے اندر دو بڑے واقعات ہوئے قصور میں بے قصور بچی زینب کا بیہمانہ قتل اور کراچی میں پولیس مقابلہ کے نام پر نقیب اللہ محسود کا قتل دونوں گھناؤنے جرائم تھے۔ ایسے گھناؤنے جرائم ہوتے رہتے ہیں حکومت،پولیس اور عدالتیں کچھ نہیں کرتیں مگر مذکورہ دونوں واقعات کے حوالے سے میڈیا نے منہ زور گھوڑے کا کردار ادا کیا حکمرانوں کو جھنجوڑا زینب قتل کیس کا ملزم 15دنوں کے اندر پکڑا گیا نقیب اللہ محسود قتل کے الزام میں سینئر سپرٹنڈنٹ پویس کی سطح کے افیسروں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ایس ایس پی راؤ انوار کی بیرون ملک فرار کی کوشش ناکام بنا دی گئی اسلام آباد ائیر پورٹ پر ان کو دھر لیا گیا اگرچہ ابھی زینب کے قاتل کو سزا نہیں ملی، نقیب اللہ محسود کے قتل کا معمہ بھی حل نہیں ہوا تاہم اتنا ہوا کہ اسی مہینے کوہاٹ،مردان، دیر، شبقدر،کراچی،لاہور اور راولپنڈی میں ہونے والی ایسی دیگر وارداتوں کی طرح یہ دو گھناؤنے جرائم پسِ پردہ نہیں چلے گئے بھلا دینے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی یہ کسی سیاسی لیڈر،کسی مذہبی رہنما، کسی وزیر یا کسی حکمران کی جدوجہد سے نہیں ہوا بلکہ میڈیا کی طاقت سے ہوامیڈیا ان دونوں وارداتوں کا پیچھا کیااخبارات، ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا نے ان واقعات کو پوری طرح کوریج دے دی ذمہ داروں کو پکڑنے اور عبرتناک سزائیں دینے کا مطالبہ زور پکڑ گیا قصور اور کراچی کے واقعات پر اتنا کچھ بولا اور لکھا گیا کہ اسلام آباد سے لیکر جی ایچ کیو تک ساری تاریں ہلائی گئیں پوری دنیا سے یہ مطالبہ آیا کہ مجرموں کو کڑی سزائیں دی جائیں یہ میڈیا کے منہ زور گھوڑے کا اعجاز تھا کہ زینب کا قاتل عمران پکڑا گیا وہ ایک مذہبی جماعت کا ورکر بھی ہے نعت خواں بھی ہے تقدس کے پردے میں لپٹا ہوا ہے عام حالات میں اُس کو پکڑنا پولیس کے لئے ممکن نہیں تھا میڈیا کی یلغار کو دیکھ کر پولیس نے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج حاصل کی
ٹیلی فون کا ریکارڈ جمع کیا علاقے کے لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی ملزم کے بھاگ جانے کا راز دریافت کیا ٹیلی فون نمبر کے ذریعے اُس کے مقام کا تعین کیا اور اس مقام سے ملزم کو گرفتار کیا اس معاملے میں میڈیا والے خاموش رہتے تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا تھا یہاں ایک بادشاہ کے دربار کا واقعہ یا دآجاتا ہے بادشاہ نے پوچھا کیا اس ملک میں مجھ سے بھی زیادہ طاقتور کوئی ہے؟ ایک شخص نے کہا”عا لیجاہ 3سال کا ضدی بچہ آپ سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے“بادشاہ نے 3سالہ بچہ دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا بچے کو حاضر کیا گیا بادشاہ نے کہا”مانگو کیا مانگتے ہو؟“ بچے نے کہا آدھا گلاس دودھ اور آدھا گلاس پانی بادشاہ نے کہا یہ شاہی دربار ہے کوئی باورچی خانہ نہیں، ہوٹل کا ریستوران نہیں
ہم دودھ اور پانی نہیں لاسکتے بچہ رونے لگا اس کو منانے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں تو بادشاہ نے حکم دیا کہ آدھا گلاس دودھ اور آدھا گلاس پانی لے آؤ، دونوں چیزیں لائی گئیں، بچے نے کہا پانی کو دودھ میں ڈالو بادشاہ نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا الگ الگ پی لو بچہ پھر سے رونے لگا بادشاہ نے کہا چلو اس کی بات مان لو پانی اور دودھ کو ملایا گیا تو بچے نے تیسرا مطالبہ یوں کیا کہ اب پانی کودودھ سے الگ کرو بادشاہ نے کہا یہ ناممکن ہے مگر بچہ بدستور رونے لگا بچے کی ضد دیکھ کر بادشاہ نے مان لیا کہ 3سالہ بچے کی طاقت بادشاہ کی طاقت سے زیادہ ہوتی ہے آ ج کل میڈیا کی طاقت بادشاہ کے دربار میں ضدی بچے کی طاقت سے بھی بڑھ کر ہے اس لئے پوری دنیا میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا گیا ہے یہ ستون مقنّنہ،عدلیہ اور انتظامیہ کو نکیل ڈالتا ہے اور ریاست کے ستونوں کے درمیاں توازن یا اعتدال پیدا کرتا ہے جدید دور میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی زیادہ طاقتور سوشل میڈیا ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان ٹیلی وژن پر آنے سے 8گھنٹے اور اخبارات میں آنے سے 20گھنٹے پہلے ٹوئیٹر کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل گیا پاکستان کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں کوہستان، گلگت، چترال اور وزیرستان تک ڈونلڈ ٹرمپ کا پیغام چند منٹوں میں بیک وقت پھیل گیا اور امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف 20کروڑ عوام کا ردّ عمل فوری طور پر سامنے آیا 100سال پہلے میڈیا کو یہ طاقت حاصل نہیں تھی 50سال پہلے بھی میڈیا اس قدر طاقتور نہیں تھا اکیسویں صدی میں میڈیا کو ”منہ زور گھوڑے“ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اس لئے مظلوموں نے سب سے پہلے میڈیا سے رجوع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور یہی مظلوموں کی اُمیدوں کا محور بھی ہے