(آرٹیکل)
موجودہ ترقی یافتہ دور میں توانائی ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کیساتھ ساتھ اس شعبے کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ آج کے دور میں جتنی ایجادات ہورہی ہیں ان کے استعمال کیلئے بجلی کی ضرورت پڑتی ہے اور مختلف ممالک ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کیلئے مختلف طریقوں سے بجلی پیداکرنے کے عمل میں مصروف ہیں، جن میں پن بجلی، تیل، کوئلہ، یورینیم، شمسی توانائی، نیوکلیئر اور بذریعہ ہوا بجلی پیدا کرنے کے طریقے بہت عام ہوگئے ہیں بلکہ آج کل شمسی توانائی کے ذریعے چلنے والی گاڑیاں بھی ایجاد ہوچکی ہیں۔ جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انسان کیلئے آسانیاں صرف اسی صورت پیدا ہوسکتی ہیں جب وہ ٹیکنالوجی سے لیس ہو اور پھر اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کیلئے اس کے پاس بجلی کی سہولت میسر ہو۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر قدرتی وسائل کثیر تعداد میں موجود ہیں، جن کو استعمال کرکے توانائی کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان آبی اور شمسی وسائل کے ذریعے اتنی بجلی پیدا کرسکتا ہے کہ جس سے اپنی ضرورت پوری ہونے کیساتھ دوسرے ممالک کو بھی بر آمد کرسکتا ہے مگر بد قسمتی سے یہ اہم شعبہ سیاست کی نظر ہوکر رہ گیا اور ان منصوبوں پر سیاست ہونے لگی کہ یہ ڈیم بننے چاہیے یا نہیں۔ اسی طرح ان ڈیمز کیلئے بر وقت منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی اہم منصوبے شروع کئے گئے اگر چہ پورے ملک میں ہزاروں میگاواٹ کی گنجائش موجود ہے۔ مگر نہ ہی اس سے فوائد حاصل کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی گئی اور نہ ہی موجو دہ ڈیموں کی upgradation پر توجہ دی گئی جس کی وجہ سے آج پاکستان کی انڈسٹری مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے بے روزگاری میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور ہمار ی نئی نسل روزگار کے حصول کیلئے دوسرے ممالک کا رخ کررہی ہے اگر چہ پاکستانی عوام میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے، وسائل بھی موجود ہیں مگر ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان وسائل کو برورئے کار لانے کیلئے بروقت منصوبہ بندی کی جائے۔ پورے ملک میں دوسرے قدرتی وسائل کیساتھ ساتھ خیبر پختونخوا بھی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔جب خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی تو یہاں لوڈ شیڈنگ نے عوام کا جینا مہال کیا ہوا تھا اس کے ساتھ ساتھ صوبے کے پہاڑی علاقوں میں بجلی کی ترسیل بھی ایک معمہ بنا ہوا تھا۔ محمد عاطف خان کو جب انرجی اینڈ پاور کا قلمدان سونپا گیا تو بڑی منصوبوں کیساتھ ساتھ توانائی کے چھوٹے پن بجلی منصوبوں پر بھی انہوں نے خصوصی توجہ دی اور ایسی منصوبہ بندی شروع کی کہ جس کے دور رس نتائج عوام کو ملیں گے۔ محمد عاطف خان نے خیبر پختونخوا میں جب 356 چھوٹے پن بجلی گھر لگانے کا پراجیکٹ شروع کیا تو مخالفین نے ان کوبڑی تنقید کا نشانہ بنایا آج وہی بجلی گھر بین الاقوامی طور پر شہرت حاصل کررہے ہیں۔ 5.1 بلین روپے کے اس پراجیکٹ میں خیبر پختونخوا کے 12پہاڑی اضلاع میں 35 میگا واٹ کا یہ پراجیکٹ کامیابی کیساتھ تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ اور یہ منصوبہ جون 2018تک مکمل ہو جائیگا۔ ان 356 چھوٹے پن بجلی گھروں میں 500 کلو واٹ کے 14بجلی گھر، 400کلو واٹ کے 7بجلی گھر، 300 کلوواٹ کے 10، 250 کلوواٹ کے 14، 200کلو واٹ کے 17، 150 کلوواٹ کے 25 اور 100کلوواٹ کے 30 چھوٹے پن بجلی گھر شامل ہیں۔ جن اضلاع میں یہ بجلی گھر لگائے جارہے ہیں ان میں ایبٹ آباد، بٹگرام، چترال، سوات، کوہستان، شانگلہ، اپر دیر، لوئیر دیر، ملاکنڈ، بونیر، مانسہرہ اور تورغر کے اضلاع شامل ہیں۔ یہ چھوٹے پن بجلی گھر ان اضلا ع میں قدرتی ہیڈ اور وہاں موجود پانی کے سورس پر لگائے جاتے ہیں جو کہ آسانی کیساتھ پہاڑی علاقوں میں لگائے جاتے ہیں۔ یہ بجلی گھر زیادہ تر ان علاقوں میں لگائے جاتے ہیں جہاں پر بجلی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور لینڈ سلائیڈنگ اور برف باری کی وجہ سے ان علاقوں میں ٹرانسمیشن لائن اور دوسری مشنری لگانے کا عمل ناممکن تھا۔ محمد عاطف خان نے ان علاقوں کی ضروریات کے پیش نظر ان علاقوں کیلئے موزوں بجلی گھروں کا انتخاب کیا جو کہ ان علاقوں میں آسانی کیساتھ لگ سکتے ہیں وہاں مقامی طورپر انکی مرمت بھی کی جا سکتی ہے۔ مقامی لوگ اس کو چلاسکتے ہیں اور بہت کم نرخوں پر مقامی لوگوں کو 24گھنٹے بجلی کی سہولت بغیر کسی لوڈ شیڈنگ کے ملتی ہے۔ نیز ان پراجیکٹس کی وجہ سے نیشنل گرڈ پر بھی بجلی کا لوڈ کم ہوجائیگا یہ وہ بنیادی باتیں تھیں جن کی وجہ سے محمد عاطف خان نے یہ پراجیکٹ شروع کیا تھا۔ اور آج ناقدین بھی محمد عاطف خان کی دور اندیشی اور قابلیت کے معترف ہیں۔ اس پراجیکٹ میں جتنے بھی 200 کلوواٹ سے زیادہ پاور کے بجلی گھر لگائے جائیں گے وہ دوسرے ممالک سے در آمد کئے جائیں گے جس سے نہ صرف ہماری اپنی ٹیکنالوجی اپ گریڈ ہوجائیگی بلکہ ملک میں روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوجائیں گے۔ اس پراجیکٹ میں ایبٹ آباد میں 0.6میگاواٹ، بٹگرام میں 4.7میگاواٹ، چترال میں 6.2میگاواٹ، سوات میں 4.2میگاواٹ، کوہستان میں 3.3میگاواٹ، شانگلہ میں 2میگاواٹ، اپر دیر میں 4.5میگاواٹ، لوئیر دیر میں 0.2میگاواٹ، بونیر میں 3میگاواٹ، مانسہرہ میں 4.7میگا واٹ اور تور غر میں 1میگاواٹ پاور کے بجلی گھر لگائے جائیں گے۔ اس پراجیکٹ کی تکمیل میں صوبائی حکومت کو موبلائزیشن اور پراجیکٹ کی تکمیل کیلئے NGOاور فرمز کی خدمات ہر ضلع کے لئے علیٰحدہ علیٰحدہ حاصل ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس پراجیکٹ کی پذیرائی کے بعد محمد عاطف خان کی کوششوں سے ADB کے تعاون سے پورے خیبر پختونخوا میں 672 منی مائیکروہائیڈل پاور پلانٹس پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے، ان 672پلانٹس میں 160 پلانٹس کنال پر لگائے جائیں گے جن پر 3بلین روپے کا خرچ آئیگا۔ جبکہ 512 پلانٹس دریاؤں اور قدرتی ہیڈز پر لگائے جائیں گے۔ جن پر 8.4بلین روپے کا خرچ آئیگا۔ جبکہ اس پراجیکٹ کی کل پیداواری صلاحیت 65میگاواٹ ہوگی۔ پراجیکٹ کیلئے کنسلٹنٹ کا انتخاب ہوچکا ہے۔ ان 672 پلانٹس کیلئے ایسی منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ 80 فیصد چھوٹے پلانٹس کیلئے تکمیل کی مدت 6ماہ اور بڑے 20 فیصد کیلئے تکمیل کی مدت 9ماہ رکھی گئی ہے تو جون 2018 تک 80فیصد اور ستمبر 2018 تک یہ پورا پراجیکٹ مکمل ہوجائیگا۔ منی مائیکروہائیڈل کے دونوں پراجیکٹس سے 100 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوجائیگی جس سے 10لاکھ لوگوں کو کم ریٹ پر بجلی ملے گی۔ جبکہ فرمز کو کام عنقریب ایوارڈ کیا جائیگا۔ اس کے ساتھ شمسی توانائی سے فوائد حاصل کرنے کیلئے اور انسان کی دو اہم بنیادی ضروریات تعلیم اور صحت میں سہولیات فراہم کرنے کی غرض سے پورے خیبر پختونخوا میں 4.3 بلین روپے کی لاگت سے 8000 سکولوں اور 186 بیسک ہیلتھ یونٹس کے سولرائزیشن پراجیکٹ پر بھی کام شروع ہوچکا ہے۔ جس کیلئے محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت نے ڈیٹا فراہم کیا ہے۔ یہ پراجیکٹ تقریباً3مہینوں کے اندر اندر مکمل ہوجائیں گے۔ جس کیلئے کنسلٹنٹ اور فرمز کا انتخاب ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا پراجیکٹ بھی صوبائی حکومت نے شروع کررکھا ہے جسمیں 4000مسجدوں کو سولرائز کیا جارہا ہے جو کہ پانچ مہینوں کی قلیل مدت میں مکمل کیا جائیگا۔ اور نمازیوں کو مسجد میں بغیر کسی لوڈ شیڈنگ کے بجلی کی سہولیات ملتی رہیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ توانائی کے میدان میں انقلاب برپا کرنے کی غرض سے محمد عاطف خان نے خیبر پختونخوا کے 100 گاؤں میں سولرائزیشن کا پراجیکٹ بھی شروع کیا ہے۔ جسکے تحت فیز 1- میں ساؤدرن ڈسٹرکٹس میں 200واٹ کے 2950 سسٹم دئیے جارہے ہیں۔ اس پیکج میں 200 واٹ کے 2 سولر پہنل، 3عددLED، سیلنگ فین، 1عدد فیڈسٹل فین، 2بیٹریاں اور ایک عدد موبائل فون چارجنگ سلاٹ فراہم کی جاتی ہے۔ یہ پراجیکٹ تکمیل کے قریب ہے۔ اسی طرح فیز2-میں نادرن ڈسٹرکٹس کے 100گاؤں میں 2750 سسٹم فراہم کرنے کا پراجیکٹ شروع ہے۔ جسمیں 2550 سسٹم کامیابی کیساتھ لگ چکے ہیں اور آپریشنل ہیں۔ ان سولرائزیشن کے پراجیکٹس سے جہاں پر ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ممکن ہوسکے گی وہاں پر روزگار کے نئے مواقع بھی سامنے آئیں گے اور ساتھ ساتھ لوگوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری ہورہی ہیں۔ سولر کے مختلف پراجیکٹس کے ذریعے حکومت تقریباً100میگاواٹ سولر انرجی پیداکریگی۔ یہ محمد عاطف خان کی دور اندیشی اور قابلیت کا ثمر ہے کہ توانائی کے میدان میں یہ انقلابی اقدامات کئے گئے۔ جہاں پر عوام کو بجلی کی سہولیات بذریعہ سولر اور بذریعہ پن بجلی ملتی رہے گی ان چھوٹے پن بجلی گھروں، منی مائیکرو ہائیڈل پاور پراجیکٹس اور سولرائزیشن پراجیکٹس کے علاوہ محمد عاطف خان نے نئے پراجیکٹس پر بھی خصوصی توجہ دی۔ جن میں 3پراجیکٹس مکمل ہوچکے ہیں جو کہ 2.6 میگاواٹ مچئی مردان پراجیکٹ، 17میگا واٹ رانولیا کوہستان پراجیکٹ اور 36.6 میگا واٹ درال خوڑ پاور پراجیکٹ شامل ہیں۔ جن کے پاور پرچیسز ایگریمنٹ کے لئے محمد عاطف خان نے وفاقی سطح پر بھی کوشش کی ہے۔تاہم وفاقی حکومت نے ابھی تک اس ارزاں ریٹ پر بجلی خریدنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور مہنگے ریٹس پر بجلی خریدی جارہی ہے ہے۔ ان بڑے پراجیکٹس کے علاوہ جاری سکیموں میں 40.8 میگاواٹ کوٹو دیر لوئر پراجیکٹ جون2019 میں مکمل ہوجائیگا۔ اسی طرح 10.8 میگاواٹ جبوڑی مانسہرہ پراجیکٹ جون2018، جبکہ کروڑہ شانگلہ 11.2 میگا واٹ پراجیکٹ جون 2018کو مکمل ہوجائیگا۔ جبکہ 84 میگا واٹ مٹلتان کالام سوات پراجیکٹ کی تکمیل کیلئے سال 2020 کی مرمت مقرر کی گئی ہے۔ صوبائی حکومت نے 216 میگاواٹ کے یہ نئے منصوبے شروع کردئیے تھے جو کہ سارے 2020 تک مکمل ہوجائیں گے اور سسٹم میں مزید 216 میگاواٹ بجلی شامل ہوجائیگی۔ جبکہ 69میگاواٹ لاوی چترال پراجیکٹ بھی 2020 تک مکمل ہوجائیگا۔ اسی طرح 300میگاواٹ بالاکوٹ مانسہرہ پراجیکٹ پر بھی ایشین ڈیولپمنٹ بنک کیساتھ بات چیت جاری ہے۔ توانائی کی ضروریا ت کو پورا کرنے کیلئے انرجی اینڈ پاور ڈیپارٹمنٹ نے FWOکیساتھ باہمی اشتراک پر ضلع چترال میں 3پراجیکٹس لگانے کیلئے دستخط کئے ہیں۔ جن میں شش گئی زنڈولئی 144 میگاواٹ، شگوسین 132 میگاواٹ اور لاس پور مری گرام 230میگاواٹ کے پراجیکٹس شامل ہیں، ان تینوں پاور پلانٹس جو کہ FWOاور انرجی اینڈ پاور ڈیپارٹمنٹ کے باہمی اشتراک سے بن رہے ہیں کی کل پیداواری صلاحیت 506میگاواٹ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ورلڈ بنک کیساتھ بھی 3پراجیکٹس پر بات چیت جاری ہیں جن میں بری کوٹ یاتراک دیر 47 میگاواٹ پلانٹ، یاتراک شرینگل دیر 28 میگاواٹ پلانٹ اور گبرال کالام 110میگاواٹ شامل ہیں۔ جن کے concept paper پی ڈی ڈبلیو پی سے منظور ہوچکے ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی صوبائی حکومت نے 7پراجیکٹس پر کام شروع کر رکھا ہے۔ جن کی کل پیداواری صلاحیت 668میگاواٹ ہے ان میں سے شرمائی دیر پراجیکٹ ایوارڈ ہوچکا ہے جبکہ 6پراجیکٹس عنقریب ایوارڈ کئے جائیں گے۔ ملک میں موجود بے پناہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے محمد عاطف خان اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی کوششوں سے سی پیک میں محکمہ انرجی اینڈ پاور نے 7پراجیکٹس شامل کئے ہیں جنکی کل پیداواری صلاحیت 1978 میگاواٹ ہے جبکہ ٹرانسمیشن کا ایک پراجیکٹ بھی سی پیک میں شامل کیا جائیگا۔ ان تمام پراجیکٹس کی تکمیل سے جہاں پر ملک سے لوڈ شیڈنگ کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگا وہاں پر ہماری انڈسٹری کی بحالی بھی یقینی ہوجائے گی اور ہمار ا ملک ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کرسکے گا اور ہمارے نوجوان اپنے ہی ملک میں روزگار کے بہترین مواقع پاکر ملک اور قوم کی خدمت اچھے طریقے سے کرسکیں گے یہ یقیناًاس خواب کی تعبیر ہوگی جوکہ صوبائی وزیر توانائی محمد عاطف خان نے دیکھی تھی جب ان کو محکمہ انرجی اینڈ پاورکا قلمدان سونپا جارہا تھاان اقدامات سے یقیناًہمارا آنیوالا کل روشن اور تابناک ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔