تین دسمبر – معذور افراد کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داریاں ۔۔ تحریر: عبد الولی خان خاموش ؔ (کوشٹ چترال)

Print Friendly, PDF & Email

3 دسمبر – معذور افراد کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داریاں
افراد کے مجموعے سے معاشرہ بنتا ہے جو ہر قسم کے لوگوں کی عکاسی کرتا ہے۔ معاشرے میں جہاں صحت مند افراد بستے ہیں وہاں ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں جو کسی نہ کسی جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ ایسے لوگ خصوصی افراد کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ معاشرے کے صحت مند افراد ملک کے کارآمد شہری تصور کئے جاتے ہیں۔ تاہم حکومت وقت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ خصوصی افراد کو بھی معاشرے میں عزت والا مقام دینے کے لئے اقدامات کرے اور ایسے قوانین وضع کرے جس سے خصوصی افراد میں احساس محرومی کا تدارک کیا جاسکے اورانہیں معاشرے کا کارآمد شہری بنایا جا سکے۔ چھٹی مردم و خانہ شماری 2017کے بعد چیف سینسیس کمشنر پاکستان نے میڈیا سے بات چیت کے دوران بتایا کہ 1998کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خصوصی افراد کل آبادی کا 2.38فیصد تھے۔ جبکہ 2017 کی مردم شماری کے بعد پاکستان میں رجسٹرڈ خصوصی افراد کی آبادی دس لاکھ کے قریب ریکارڈ کی گئی ہے۔
حکومت پاکستان نے ماضی میں معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لئے قوانین بھی وضع کئے ہیں جس میں معذور افراد (روزگار و بحالی) آرڈیننس مجریہ 1981قابل ذکر ہے۔ اس قانون کے تحت قومی کونسل برائے بحالی معذور افراد کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا کام معذور افراد کی بحالی، انہیں روزگار مہیا کرنے اور انکی بہبود کے لئے پالیسی مرتب کرنا تھا۔ اس کونسل کو بحالی کے خواہشمند معذور افراد کی طبی تشخیص، علاج اور سروے کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں۔ مذرکوہ آرڈیننس کے تحت تمام صوبوں میں صوبائی کونسل برائے بحالی معذورین کا قیام بھی عمل لایا گیا۔ خصوصی افراد کو ہنر مند بنانے کے لئے تربیتی سنٹرز کا قیام بھی صوبائی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ نیز اس قانون کے تحت ملازمتوں میں پہلے معذور افراد کے لئے ایک فیصد کوٹہ مختص تھا جسے اب دو فیصد کر دیا ہے۔
اسی طرح حکومت پاکستان نے خصوصی شہریوں کے ایکٹ 2008کے تحت معذور افراد کو تمام عوامی مقامات تک رسائی، عوامی ٹرانسپورٹ میں خصوصی نشستوں کی فراہمی، فٹ پاتھ پروھیل چیئرز کی باآسانی آمدو رفت اور سڑک پار کرتے ہوئے نابینا افراد کو ترجیح دینے جیسے اقدامات کئے ہیں۔ اس قانون کے تحت حکومت نے تمام عوامی مقامات، بینک، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، پولیس سٹیشن، ریلوے سٹیشن، ہوائی اڈوں وغیرہ کے لئے تعمیرات کے دوران وھیل چیئرز کی آمدورفت کے لئے خصوصی راستوں کی تعمیر کو لازمی قرار دیا ہے۔ اسی طرح سڑکوں پر ٹریفک عملے کو بھی خصوصی ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ دوران سفر اور سڑک عبور کرتے ہوئے معذور افراد کی آمدو رفت کا خاص خیال رکھیں۔ مزید براں حکومت نے 2009میں خصوصی شہریوں کے لئے دوران سفر کرایوں میں تخفیف کا حق مجریہ 2009کا اجرا ء کیا۔ جسکے تحت معذور افراد کے لئے عوامی ٹراسپورٹ میں سفر کے دوران تخفیفی کرایے کی ادائیگی کا حق دیا گیا ہے۔
جس طرح صوبے کے دیگر اضلاع میں خصوصی بچوں کی بحالی کے مراکز موجود ہیں اس طرح ضلع چترال میں خصوصی بچوں کا ایک سکول پچھلے کئی سالوں سے جسمانی لحاظ سے معذور افراد کی فلاح و بہبود اور انہیں ہنر مند بنا کر معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کے لئے خدمات انجام دیتا آرہا ہے۔ تاہم یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ مذکورہ سکول اب بھی کرائے کی عمارت میں قائم ہے۔ انتظامی و تدریسی عملہ موجود ہے لیکن ناکافی وسائل بنیادی ضروریات کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس اہم سرکاری تعلیمی ادارے کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔ سپیشل ایجوکیشن کمپلیکس چترال کی تعمیر کے لئے فنڈز کی فراہمی اور اسے دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
حکومت کی طرف سے قوانین موجود ہیں لیکن ان تمام قوانین کا قابل عمل نفاذ نہ صرف حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے بلکہ بحیثیت ایک ذمہ دار شہری ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد موجود خصوصی افراد کو محرومی کا احساس نہ ہونے دیں۔ انہیں معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کے لئے حکومتی پالیسی اور قوانین کے نفاذ میں حکومتی اداروں کا ہاتھ بٹائیں اور بحیثیت انسان اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کی بھی بجا آوری کریں۔