چترال کی سیاسی ڈائری،۔۔۔ تحریر: فخر عالم

Print Friendly, PDF & Email

چترال کی سیاسی ڈائری
عام انتخابات کو ایک سال سے کم کا عرصہ رہ گیا ہے تو چترال میں سیاسی برتری کے حصول کے لئے مرکز اور صوبے میں ایک دوسرے کے سخت سیاسی حریف ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف عمل دیکھائی دے رہے ہیں اور اس دوڑ میں وہ ترقیاتی منصوبوں کا اعلانات کررہے ہیں تواہالیان چترال کا اپنے ضلعے کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوتادیکھائی دے رہا ہے جو کہ چترال کے عوام گزشتہ پچا س سالوں سے مطالبہ کرتے ارہے تھے جب 8۔نومبر کو قائد پی ٹی آئی عمران خان اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک چترال کے دورے پر آکر پولو گراونڈ میں ایک جلسہ عام سے خطا ب کرنے والے ہیں اور اس جلسے کی کامیابی کے لئے تمام سیاسی جماعتیں ایک پیچ پر دیکھائی دے رہے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ چترال کو اب تک مختلف سیاسی حکومتوں نے اس کی پسماندگی کو دور کرنے اور اسے ترقی کے راہ پر گامزن کرنے کے قابل وسائل کی فراہمی میں ناکام رہے ہیں چاہے وہ حکومتیں مرکزی ہوں یا سیاسی۔ چترال کے لئے سال بھر کھلا رہنے کے قابل اپروچ سڑک کا نہ ہونا،ضلعے کے اندر سڑکوں کی مخدوش حالت، روزگار کے ذرائع کا انتہائی محدود ہونے سے بے روزگاری کا عام ہونا، علاج معالجہ کی انتہائی ناگفتہ بہہ سہولیات اور بجلی کی شدید قلت جیسے مسائل کا سامنا رہا ہے اور اہل سیاست ان مسائل پر سیاست کرتے رہے ہیں اور یہ مسائل ان کے سیاست کا محور رہے ہیں۔ اس ضلعے کا سال بھر ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے کے لئے لواری ٹنل پراجیکٹ کا منصوبہ 1975ء میں پی پی پی حکومت نے شروع کی تھی لیکن اگلے سال ہی اس پر کام بند کردی گئی اور 30سال بعد 2005ء میں فوجی آمر جنرل مشرف نے اس پر دوبارہ کام کا آغاز کردیا اور 2013ء تک اس پراجیکٹ کامحض 20فیصد کام مکمل ہوچکا تھا جب مرکز میں میاں نواز شریف نے عناں حکومت سنھبال لی۔ نواز حکومت نے لواری ٹنل پراجیکٹ پرکام کی بندش کا نہ صرف نوٹس لیا بلکہ اسے جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کا تہیہ کرتے ہوئے ہر سال فراخدلانہ allocationکرتی رہی تقریبا چوبئس ارب روپے کی خطیر رقم میاں نواز شریف کی حکومت نے فاہم کیں جس کے نتیجے میں اس سال 20اگست میں بقیہ 80فیصد کام بھی مکمل کر کے سا بق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسے پبلک کے لئے کھول دیا اور اب محض سات منٹ میں لواری پاس کا سینہ چیر تے چترال سے دیر یا دیر سے چترال میں داخل ہونا ممکن ہوگیا ہے۔ اسی طرح بجلی کی قلت کو دورکرنے کے لئے وفاقی حکومت نے واپڈ اکے گولین گول ہائیڈروپاؤر پراجیکٹ (109میگاواٹ) کے بھی بقیہ 75فیصد کام مکمل کیا اور اس میں سے 30میگاواٹ چترال کو دینے کا بھی نہ صرف اعلان کردیا بلکہ اس کے لئے چترال کے جوٹی لشٹ کے مقام پر گرڈ اسٹیشن بھی مکمل کی۔ اسی طرح چترال کے اندر تین بڑے بڑے روڈ پراجیکٹوں چترال شندور، چترال گرم چشمہ اور ایون کالاش ویلیز روڈکی بین الاقوامی معیار کے مطا بق تعمیر کے لئے مجموعی طور پر 20ارب روپے فراہم کردی اور چترال میں ماحولیات کی بقاء اور تحفظ کے لئے جنگلات پر انحصار کو ختم کرنے کے لئے قدرتی گیس کے ٹینک چترال میں قائم کرکے پائپ لائن کے ذریعے گھروں میں گیس کی فراہمی کا پراجیکٹ شروع کرنا، چترال یونیورسٹی کو حقیقت کا روپ دینے کے واسطے 290میلین روپے پی ایس ڈی پی سے فراہمی، بونی تورکھو روڈ کی تکمیل کے لئے ایک ارب 12کروڑ روپے کی فراہمی مرکزی حکومت کے ایسے کام ہیں جوکہ آئندہ انتخابات میں اس کے لئے زاد راہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ وفاقی حکومت کے ان فراخدلانہ اقدامات میں 200بستروں کاجدید ہسپتال بھی شامل تھا جس کا اعلان سابق وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ سال چترال میں کیا تھا لیکن صوبائی حکومت کی طرف سے زمین نہ ملنے اورعدم تعاون کی بنا پر یہ وفاقی منصوبہ التواء کا شکار ہے۔
ان حالات میں چترال میں اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کا تعاقب کرنے کے لئے پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نے ضلعے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے یا اپر چترال کو ضلعے کا درجہ دینے کے لئے صوبائی اور مرکزی قیادت کو اس بات پر باؤر کرنے پرمجبور کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ اب اس اعلان کے بعد پانسہ پی ٹی آئی کے حق میں پلٹ سکتا ہے کیونکہ صوبائی حکومت نے گزشتہ چار سالوں کے دوران کوئی قابل ذکر میگاپراجیکٹ چترال لانے میں ناکام رہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی کے ڈویژنل سربراہ اور صوبائی وزیر محمود خان نے پارٹی کی صوبائی اور مرکزی قیادت کی طرف سے یقین دہانی کرائی ہے کہ 8۔نومبر کے جلسہ عام میں اپر چترال کے مستوج سب ڈویژن کو ضلعے کا درجہ دینے کا تاریخی اعلان کیا جائے گا جلسے کی تیاری کے سلسلے میں پی ٹی آئی کے رہنماوں عبد الطیف اور ایم پی اے فو زیہ بی بی کی قیادت میں چترال کے پارٹی ورکرز دن رات کام کر رہے ہیں اور پولو گراونڈ میں بہت بڑے جلسے کے لیے پنڈال سجا یا جا رہا ہے، چترال بازار کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔ ڈی جے بٹ کی بھی اج منگل کے روز چترال امد متو قع ہے۔ ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ کے مطابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کا 8نومبر کے دن ضلعی حکومت کی جانب سے چترال میں فقید المثال استقبال کیا جائے گا جس میں چترال کے عوام اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہوکر حصہ لے رہے ہیں جبکہ چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کے ممکنہ اعلان کے حوالے سے بھی عوام میں جوش وخروش پایا جاتا ہے۔اتوار کے روز پولو گراونڈ میں جلسہ گاہ میں انتظامات کا جائزہ لینے کے بعد مشرق سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چترال میں سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی استقبال کو تاریخی بنانے کے لئے سرگرم عمل ہوگئے ہیں اور بازار کو سجانے کا کا م بھی شروع ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان اور پرویز خٹک کا اس وقت دورہ چترال انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور چترال کے عوام اس دورے سے کئی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں اور دو سال قبل سیلاب اور زلزلے سے تباہ حال انفراسٹرکچروں کی بحالی کے لئے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو خاطر خواہ فنڈز کی فراہمی بھی متوقع ہے تاکہ عوام کو مشکلات کے دلدل سے باہر نکالے جاسکیں۔ انہوں نے کہاکہ چترال کے عوام سیاسی طور پر بیدار لوگ ہیں اور یہاں مثبت سیاسی روایات کو پروان چڑہاتے ہوئے کسی بھی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنماؤں کے استقبال میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس جلسے میں کوئی قابل ذکر منصوبہ اب تک شامل نہیں بتایا جارہا ہے جوکہ مسلم لیگ (ن) حکومت کا مقابلہ کرسکیں۔ یہ بات بھی ایک حقیقت کے طور پر سامنے آئی ہے کہ مقامی قیادت کا اندازہ درست ثابت ہوا اور اب نئی ضلعے کے حوالے سے عوا م میں جوش وخرو ش پایا جاتا ہے اور یہ بات زبان زد خاص وعام بن کر رہ گئی ہے اور یہ پی ٹی آئی کی rating کو اوپر لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ نئی ضلعے کے حوالے سے عام لوگوں کے ذہنوں میں جو تصویر پائی جاتی ہے، اس سے پی ٹی آئی کو بعد میں شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا جب نئی ضلعے سے منسلک ایک عام آدمی کے توقعات پورا ہوتا ہوا دیکھائی نہ دے۔ نئی ضلعے کو ترقی کا زینہ سمجھنے والے عوام کو جب ترقی کے آثار دیکھائی نہ دے تو اس کا معکوس اثر انتخابی نتائج پر پڑجائے گی۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نئی ضلع کے اعلان کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی قیادت کو کئی اورترقیاتی کاموں کا اس نشست میں اعلان کرنا پڑے گا جن میں چترال کے لئے الگ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کا قیام بھی شامل ہے جوکہ تعلیمی حلقوں کا ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہے اور یہ سچ بھی ہے کہ چترال کے تعلیمی اداروں میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلباء وطالبات کی تعداد اس اسکیل پر ہے کہ ان سے الگ امتحانی بورڈ قائم ہوکر برقرار رہ سکے۔ اسی طرح اپر چترال کے ریشن میں قائم صوبائی حکومت کی سیلاب زدہ پن بجلی گھر کی بحالی کااعلان اور اس کی تعمیر تک واپڈا کے گولین گول پراجیکٹ سے اپر چترال میں پیڈ وکے18ہزار صارفین کے لئے بجلی کے حصول کا اعلان اور اس سال 25دسمبر تک اس پر عملی قدم اٹھانا وہ اقدامات ہوں گے جوکہ اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کے لئے وہ کام ہوں گے جن کی بنیاد پر پارٹی کے نامزد امیدوارالیکشن لڑسکیں گے ورنہ ا ب تک اس کے بیلنس شیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پیش کرنے کے لئے چترال کے تناظر میں بہت کم ہی ملیں گے۔ پی ٹی آئی قیادت کا اس حقیقت سے فرار ہونے کی کوئی راہ نہیں کہ ان ساڑھے چار سالوں کے دوران اس صوبائی حکومت نے وہ منصوبے مکمل کرلئے جنہیں گزشتہ اے این پی اور پی پی پی کی مخلوط حکومت نے شروع کیا تھا جن میں چترال بائی پاس روڈ، دروش میں ڈگری کالج، چترال شہر اور دروش ٹاؤن کے لئے بالترتیب 45کروڑ روپے اور 18کروڑ روپے مالیت کے واٹر سپلائی اسکیموں کی تکمیل (جنہیں اب تک محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ نے ناقص تعمیر کی وجہ سے اپنے چارج میں نہیں لیا ہے) اور دروش کے قریب لاوی پاؤر پراجیکٹ پر دوماہ قبل کام شروع کرنا میڈیم سیائز پراجیکٹ ہیں۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں سہولیات کا فقدان اور ڈسٹرکٹ اسپیشلسٹوں کی اسامیوں کا پہلے کی طرح خالی رہنا اور مریضوں کا پہلے کی طرح پشاور ریفر کرنے کی شرح میں کمی نہ آنا وہ انتظامی مسائل ہیں جن سے صوبائی حکومت کی مقبولیت ضرور متاثر ہوئی ہے اور اب ضلعے کا اعلان ان تمام گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے صرف اور صرف اس وقت کافی ہوگاجب اس کے لئے مناسب مقدار میں فنڈز مہیاکئے جائیں اور اعلان کے ساتھ ہی تمام ضلعی سطح کے دفاتر ہنگامی طور پر بونی میں قائم کئے جائیں اور ضلعی ہیڈ کواٹرز کے قیام کے لئے کاغ لشٹ کے وسیع وعریض مگر بے آب وگیاہ میدان میں آب رسانی کا انتظام کرکے ماسٹر پلان کے مطابق تعمیر ات کا کام شروع کیا جائے جوکہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک جیسے باہمت ایڈمنسٹریٹر کے لئے کوئی مشکل کام نہیں جس نے پچاس ارب روپے کا ریپڈ بس منصوبے کو محض چھ ماہ میں مکمل کرنے کے لئے کمر کس لی ہے تو یہ اس کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔