چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا عمل سیاست کی حد تک محدود نہ ہو۔ امیراللہ خان یفتالی ؔ۔

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نمائندہ چترال میل)چترال کے معروف سیاسی و سماجی شخصیت سابق ممبر ڈسٹرکی کونسل چترال امیر اللہ خا ن یفتالیؔ اپنے ایک اخباری بیان کے ذریعے چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کے عمل کو خوش ائیند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کے۔ پی۔ کے۔حکومت اگر جملہ قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نیک نیتی سے چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرتی ہے تو یہ چترال کے لیے بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن حدشہ ظاہر کیا جاتاہے یہ اغلان محضِ سیاسی اغلان نہ ہو اور الیکشن ۸۱۰۲ ؁ کے قریب اتے ہی اس طرح کے اغلانات سے خدشات جنم لیتے ہیں کہ کہیں یہ سیاسی چال نہ ہو۔اس بارے میں قوم کے ذہن میں ذیل سوالات جنم لے رہے ہیں جوغور طلب ہیں۔
۱؛۔ یہ کہ کیا چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کے عمل میں مرکزی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ متفق ہے یا قانونی اور ائینی طور پر مرکزی حکومت صوبائی حکومت کی اس فیصلہ کا پابند ہے؟
۲؛۔ کیا نئے ضلع کا اغلان ہوتے ہی نئے ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ڈپٹی کمشنر،ایس۔پی اور دیگر لائن ڈپارٹمنٹ کے سربراہاں عوام کے مسائل حل کرتے ہوے نظر ائینگے؟
۳؛۔ کیا ضلع کے اغلان کے ساتھ نئے ضلع کا ضلعی ناظم اپنے فرائضِ منصبی سنبھال کر عوام کی خدمت میں مصروفِ عمل ہو گا یا کہ موجودہ ضلعی ناظم کے رحم و کرم پر ہی اگلے بلدیاتی الیکش تک نئے ضلع کے عوام رہینگے؟
۴؛۔کیا اگلے جنرل الیکشن ۸۱۰۲؁ کونئے ضلع کا قومی اسمبلی کا ممبر ان کا اپنا ہو گا یادو ضلع قومی اسمبلی کے ایک ہی سیٹ پر پنجہ ازمائی کرینگے؟
ٓ اگر درجہ بالا سوالات کے جوابات نفی میں ہو تو اس سے کچھ تواقعات وابستہ کرنا کوئی ہوشمندی ہر گز نہیں اور اغلان،اغلان تک ہی محدود ہوگی۔لہذا مطالبہ کرتے ہیں کہ کے پی کے حکومت واقعی اگر تبدیلی کے نعرے کے ساتھ مخلص ہے۔تو نئے ضلع کو مستحکم اور خوشحال ضلع بنانے کے لیے ان تمام چیزوں کا خیال رکھنا ہو گا جو حقیقی تبدیلی لانے میں مدد گار ثابت ہونگے۔