صدا بصحرا۔۔۔۔شند ور اور سیاچن۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ
شند ور اور سیاچن
شندور میں پولو میلہ شروع ہوئے 103 سال بیت گئے پچھلے 7 سالوں سے بھارت نے واویلا مچا نا شروع کیا ہے کہ شندور کو بھی سیاچن بنا یا جائے 31 جولائی 2017 ء کو شندور کا پولو میلہ ختم ہوا ہم نے ایک ٹی وی چینل پر بھارتی پروپیگینڈا سُنا ایک آدھ غیر معیار ی اخبارات میں بلا تحقیق تبصر ے اور مضامین آگئے جن میں یہ تاثر دینے کی کو شش کی گئی کہ معاہد ہ امر تسر 1843 میں شندور بھی ڈوگرہ کو فروخت کیا گیا تھا اور ڈوگر ہ نے چترال کے لوگوں کو مال مویشی چرانے کی اجازت د ی تھی ایسی بے بنیاد باتیں پڑھے لکھے لوگ تحقیق کے بعد تاریخی مواد کو سامنے رکھ کر نہیں کر سکتے اس لئے تبصرہ کرنے والے سُنی سنائی باتوں کا حوالہ دیکر جھوٹا پروپیگینڈا کرتے ہیں جس میں ایک فیصد بھی سچائی نہیں ہوتی ایک اخبار میں لکھا گیا ہے کہ چترال کے لوگوں کو 1914 میں مال مویشی چرانے کی اجازت دی گئی حالانکہ 1914 میں لکھی ہوئی دستا ویز موجود ہے گو پس اور گلگت کے سرکاری ریکارڈ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے اس پر سپیشل اسسٹنٹ گو پس کپٹن اے بی شے اور اے پی اے چترال ڈی جی ولسن کے دستخط ہیں اس پر 25 جولائی 1914 کی تاریخ دی گئی ہے انگریزی دستاویز کاا ردو ترجمہ اس طرح شروع ہوتا ہے ” غذ ر کے راجہ مراد خان اور گو پس کے سپیشل اسسٹنٹ نے لنگر کے جنگل سے مختلف مقاصد کے لئے لکڑی لیجا نے کے سلسلے میں لاسپور کے عوام کو حاصل حقوق پر سوال اُٹھا یا“ تمہید سے واضح ہوتا ہے کہ 1914 سے پہلے شندور چترال اور لاسپور کا حصہ تھا لنگر کے جنگل سے لاسپور کے لوگوں کو لکڑی لیجا نے کے حقوق پہلے سے حاصل تھے شندور کا کوئی جھگڑا 1914 میں نہیں تھا آگے جا کر لکھا ہے ”لنگر کا جنگل تیزی سے ختم ہور ہا ہے اس لئے لکڑی کے استعمال کو کم سے کم کر نے کے لئے پا بند یا ں مقرر کی جائیں“ یہ جملہ اس بات کی دلیل دیتا ہے کہ شندور پرقانونی، موروثی حق رکھنے والے لاسپور کے عوام کو لنگر کے جنگل سے بے دخل کر نا ممکن نہیں تھا اس لئے غذور اور لاسپور دونوں طرف کے عوام پر لنگر کے جنگل سے لکڑی لیجانے کے لئے یکساں پابند یا ں لگائی گئیں دستاویز کے پیراگراف 4 میں دو اہم باتیں تسلیم کی گئی ہیں ایک یہ کہ شندور میں لاسپور کے 144 گھرانے آباد ہوئے ہیں دوسری بات یہ ہے کہ لو گ لنگر کی عمارتی لکڑی صرف شندور میں گھرو ں کی تعمیر پر لگا سکتے ہیں لاسپور کی طرح گلگت، گوپس اور یا سین، اشکو من میں پڑھے لکھے لوگوں کی کمی نہیں ارباب علم و دانش کی توجہ تین نکا ت کی طرف مبذول کر انا منساب سمجھتا ہوں پہلی بات یہ ہے کہ 1914 میں بید کے جنگل کو بچا نے کی فکر تھی شندور میں لاسپور کے لوگوں کے مکانات میں صنو بر (Juniper) اور بھوج(Bitule) کی لکڑی استعمال ہوئی ہے جو رئیس حکمر ان شاہ نادر کے دور حکومت کی ہے 1320 ء سے لیکر 1341 ء تک کے دور کا ذکر ہے صنو بر کے جنگلا ت ختم ہوئے،بھو ج کے درخت ختم ہوئے، اب بید کا جنگل بھی ختم ہوچکا ہے تاریخ میں جب بھی کوئی مقدمہ آیا عمارتی لکڑی اور جلا نے کی لکڑی کے لئے لنگر کے جنگل میں دستور ی حقوق پر جھگڑا ہوا،فیصلہ لاسپور کے حق میں ہوا 1959 ء کے فیصلے میں لکھا گیا کہ غذر کے لوگ جنگل کے دستور کی خلاف ورزی کا جرمانہ گو پس میں جمع کرینگے لاسپور کے لوگ اپنا جر مانہ مستوج میں جمع کر ینگے دونوں طرف سے لنگر کے لئے ایک ایک واچر مقر ر کیا گیا لاسپور کیطرف سے میر زا پناہ ولد درویش پناہ واچر مقر ر ہوا جس کی تنخواہ خبیر پختونخوا کے محکمہ جنگلات سے ادا کی جاتی تھی دوسرا نکتہ یہ ہے کہ1975 کے لینڈ کمیشن کی رپورٹ میں شندور اور اس کے دو پولو گراؤ نڈ چترال کی ملکیت قرار دئیے گئے تیسر ا نکتہ یہ ہے کہ 2010 ء میں لاسپور کے عوام کے مکانات، مساجد اور جماعت خانوں کی تعمیر پر سوال نہیں اُٹھا یاگیا چترال سکاؤٹس کے پوسٹ اور پاک فوج کی موجودگی پر سوال اُٹھا یا گیا مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جن کتاب کا حوالہ دیکرپاک فوج او رچترال سکاؤٹس کو ہد ف تنقید بنا یا گیا اس کتاب کا نام ”شندور، ڈیو رنڈبا ونڈری وایو لیشن“ ہے پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں کہ ڈیورنڈ باونڈری پاکستان اور افغانستان کی سرحد کا نام ہے جو شندور سے کوسوں دور ہے شندور کا ڈیو رنڈ با ونڈری سے کوئی تعلق نہیں اس طرح پنجی لشٹ کا نام کسی مسل میں نہیں ہے معلوم ہوتاہے کہ بھارت کسی نہ کسی بہانے شندور کو سیاچن بنانے پر تلاہواہے اب چترال اور خیبر پختونخوا میں اس تجویز پر غور کر نے کا وقت آگیا ہے کہ شندور پولو فیسٹول میں گلگت بلتستان کی پولوٹیموں کو دعوت نہ دی جائے بلکہ خیبر رائفلز،وزیر ستان سکاؤٹس، مہمند رائفلز اور دیگر فورسز کی ٹیمیں چترال کی دعوت پر شندور پولو میلے میں شرکت کر ینگی نہ رہے بانس نہ بجے بانسر ی گلگت اور گو پس کے اہل علم،اہل قلم اور اہل دانش لوگوں کا فرض ہے کہ سنی سنائی باتوں کی جگہ تاریخی دستاویزات ،شواہد اور دستور العمل کو ترجیح دیں جد ید دور سُنی سنائی باتوں کا نہیں ہے دستاویز ی ثبوتوں کا دور ہے ممتاز گو ہر اس خطے کے ممتاز اور نما یاں اہل قلم ہیں اگر سنی سنائی باتوں کی جگہ ریکارڈ پر توجہ دیں تو ان کے علمی وقار کے عین مطابق کام ہوگا حسین بن منصور حلا ج کو بغداد کے لوگوں نے خلیفہ اور قاضی کے حکم پر پتھر مارا جنید بغداری ؒ نے پتھر کی جگہ پھول اُن کی طرف پھینکا جو ان کو لگا رات خواب میں انہوں نے جنید بغداری ؒ سے کہا بغداد والوں کے پتھر مارنے سے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی تمہارا پھول مجھے لگا تھا وہ اب بھی مجھے تکلیف دیتا ہے اگر بغداد والے جاہل تھے تمہیں تو میراحال معلوم تھا ممتاز گوہر صاحب سے اتنی ہی شکا یت ہے۔