صدا بصحرا۔۔صوبے کا نیا ترقیاتی پروگرام۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

خیبر پختونخوا کے لئے نئے مالی سال کا بجٹ وفاقی بجٹ کے دو ہفتے بعد پیش کیا گیا 7جون کو صوبائی اسمبلی میں وزیر خزانہ مظفر سید نے جو بجٹ پیش کیا اس کا کل حجم 600 ارب روپے سے اوپر ہے اس میں 207 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے رکھے گئے ہین یعنی کل بجٹ کا ایک تہا ئی ترقیاتی پروگرام پر لگایا جائے گا اسمبلی میں بجٹ پر بحث کا آغاز ہوا ہے بحث کے دوران کٹوتی کی تحریکیں آئینگی تو پتہ لگے گا کہ صوبائی اسمبلی کے اراکین عوام کے ساتھ کس حد تک مخلص ہیں دیر کو ہستان سے جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی محمد علی نے اپنی ہی پارٹی کے وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کا بائیکاٹ کیا اور اس بائیکاٹ کی پانچ معقول وجوہات بتا کر سب کو خاموش کر دیا پی ٹی آئی کی مخلوط صوبائی حکومت کا یہ آخری بجٹ ہے گذشتہ 4سالوں کے تجربات کو سامنے رکھ کر مبصرین کے چند خدشات بھی ہیں تاہم صوبے کے عوام کی چند توقعات بھی ہیں عوام کی پہلی اُمید یہ ہے کہ 2018 الیکشن کا سال ہے اس لئے اس سال ترقیاتی فنڈکا 75فیصد واپس نہیں کیا جائے گا بلکہ بجٹ کو اہداف کے مطابق خرچ کیا جائے گا وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ایک میٹنگ میں حکام کو ہدایت کی ہے کہ ترقیاتی کاموں پر کام کا آغاز نئے مالی سال کے شروع ہی میں کیا جائے عوام کی دوسری امید یہ ہے کہ 2012ء سے جوسکیمیں ادھوری پڑی ہیں ان کو مکمل کرنے پر توجہ دی جائیگی اس حوالے سے صوبائی حکومت کی پالیسی واضح نہیں ہے عوام کی ایک بڑی توقع یہ بھی ہے کہ 2013اور 2015 کے سیلابوں میں تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کو بحال کرنے پر توجہ دینے سے الیکشن میں حکومت کی ساکھ بہتر ہو جائیگی یہ ایسی توقع ہے جس پر صوبائی حکومت نے کوئی پالیسی وضع نہیں کی عوام کی ایک اور توقع یہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ کو بااختیار بنانے کیلئے مزید فنڈ مہیا کئے جاینگے اس کے برعکس صوبائی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ویلج کونسلوں اور نیبر ہُڈ کونسلوں کے فنڈ سے 20فیصد کٹوتی کر کے شہری صفائی کی کمپنی کو دیا جا ئے گا لو کل گو رنمنٹ کے فنڈ سے 20فیصد کٹوتی کر کے اراکین اسمبلی کو دیا گیا ہے 30فیصد کمیشن لیا جارہا ہے اس طرح لو کل گورنمنٹ کی سکیموں کے لئے جس فنڈ کا وعدہ کیا گیا تھا اس کا صرف 30فیصد ہی رہ گیا ہے جو اونٹ کے منہ میں زیر ہ کے مترادف ہے جہا ں تک عوامی خدشات کا تعلق ہے وہ تجزیہ کاروں کی اراء کی روشنی میں صرف دو خدشات ہیں پہلا خدشہ یہ ہے کہ 2017/18کے ترقیاتی پروگرام پر عمل درآمد نہیں ہو سکے گا کیونکہ گذشتہ 4سالوں کے اند ر قومی تعمیر کے محکموں میں توڑ پھوڑ کر کے سسٹم کو برباد کر دیا گیا ہے بقول عمران خان سسٹم کا ستیا ناس اوربیڑہ غرق کر دیا گیا ہے قابل، تجربہ کار اور نیک نام افسروں کو کھڈے لائن لگایا گیا ہے روڈ قلی سے ڈرافٹس مین کا کا م لیا جارہا ہے روڈ انسپکٹر کو سب انجینر کے عہدے کا چارج ملا ہے چیف پلاننگ افیسر کا جو سیل ہر محکمے میں کام کرکے پی سی ون بنا تا تھا و ہ سیل 4سا لوں سے غیر فعال ہے قومی تعمیر کے محکموں کی یہ حالت ہے کہ بقول شاعر ”ہر شاخ پہ اُلو ّ بیٹھا ہے“یکم جولائی 2017کو 4سا لوں سے بند پڑے ہو ئے دفاتر کیسے سر اُٹھا ئینگے اور کس طرح فعال ہو نگے یہ ایک معمہ بھی ہے اور مخمصہ بھی دوسرا بڑا خدشہ یہ ہے کہ حکو مت نے ترقیاتی کا موں کا سارا ٹھیکہ پہلے ہی راولپنڈی کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی کو دیدیا ہے کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے مذکورہ کمپنی کا م نہیں کرتی، منصوبوں کو مکمل نہیں کرتی اپنا بل بندوق کی نوک پر وصول کر کے لے جا تی ہے مذکورہ کمپنی نے لواری ٹاپ کی سڑک کو دو سالوں سے صاف نہیں کیا جا بجا ملبہ اورٹوٹی ہوئی دیواروں، تنگ موڑوں کی وجہ سے آئے روز حادثات ہوتے ہیں اس کمپنی نے چترال میں اراندو روڈ پر کام کرکے دوسال ہوئے مزدور وں کو مزدوری ادا نہیں کی کمپنی کے مقابلے میں مزدوروں کی فریاد بھی کوئی نہیں سنتا راولپنڈی کی کمپنی ائیندہ بھی کوئی کا م نہیں کریگی پستول لہراکر بل وصول کر کے لے جائیگی کیو نکہ قومی تعمیر کے محکمے ٹھیکہ دار کے ما تخت کر دئیے گئے ہیں تجزیہ نگاروں کی رائے میں یہ وہ خدشات ہیں جن کو نو شتہ دیوار کا درجہ حاصل ہے حکمران جماعت کے ابتدائی تین ماہ انٹر اپارٹی الیکشن کی نذرہو جائینگے اکتوبر 2017کے بعد باقاعدہ انتخابی مہم شروع ہو گی ترقیاتی پروگرام کا حشروہی ہو گا جو گذشتہ 4 سالوں کے اندر ہو اہے چترال ٹاوں کے بڑے بازار سے گذرنے والی ندی پر 3لاکھ روپے لاگت والے دو پیدل پُل 2015کے سیلاب میں بہہ گئے تھے صوبائی حکومت دو سال گذرنے کے باوجود 6لاکھ روپے خرچ کر کے دو پیدل پلوں کو دوبارہ تعمیر نہ کر سکی الیکشن والے سال ایسی حکومت سے کسی بڑے منصوبے پر کا م کی توقع کیسے وابستہ کی جا سکتی ہے؟صوبے کا نیا ترقیاتی پروگرام کا غذات پر بہت اہمیت کا حامل ہے 207 ارب روپے اگر ترقیاتی کا موں پر خرچ ہوئے تو حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ بہتر ہو جائیگی مگر قومی تعمیر کے محکمے ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہو چکے ہیں سسٹم ناکارہ ہو چکا ہے 4سالوں سے یہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے ہیں اب یکا یک یہ محکمے کس طرح فعال ہونگے باہر سے مسلط ہونے والی تعمیراتی کمپنی کو کس طرح لگام دینگے؟اور ترقیاتی اہداف کو 2012یا 2011کی طرح حاصل کرنے کے لئے ان کے تن مردہ میں نئی روح کون پھونکے گا؟
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار اُن سے
یہ بازو میر ے آزمائے ہو ئے ہیں