محبت کی دیوی ۔۔۔ تحریر: اقبال حیات ؔ آف برغذی

Print Friendly, PDF & Email

محبت کی دیوی
خالق کائنات کی اس دنیا میں بسنے والے انسانوں کے باہمی رشتوں کے مختلف رنگ وبو ہیں۔ جہاں مذہب، ذبان،قوم اور علاقوں کی بنیاد پر وابستگی نظر آئیگی۔ وہاں خاندا ن کی نسبت سے رشتے استوار ہوتے ہیں۔ کہیں پیشے کے رنگ میں ناطے جڑتے ہیں۔ تو کہیں شراب، چرس وغیرہ نشہ آور آشیاء کے ہم مشربوں میں یاری ہوتی ہے۔ الغرض اگر تمام رشتوں کو کھنگالاجائے تو ماں کے رشتے میں اللہ رب العزت نے جو میٹھاس، چاشنی اور لذت رکھی ہے اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ اور اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ماں کی نظریں اولاد کی دلی کیفیت کو بھانپنے کے لیے ہمیشہ اس کے چہرے پر مرکوز ہوتی ہیں۔ اور حرص ولالچ سے مکمل طور پر نا آشنا ہوتی ہیں۔ اولاد نظروں سے اوجھل ہونے پر ماں کے دل میں تڑپ اور ذبان پر خیریت کی آرزؤں پر مبنی الفاظ جاری ہوتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اللہ رب العزت سے ہم کلام ہونے کے لئے کوہ طور پر جاتے تھے تو ان کی سلامتی کی دعا ان کے قابل احترام ماں کی مقدس لبوں پر ہوتی تھی۔ والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد آپ کوہ طور پر خدا وند اعظم سے ہم کلامی کے لئے جارہے تھے۔ توغیب سے ندا آئی کہ ائے موسیٰ زرا سنبھل کے قدم رکھ کیونکہ تمہارے لئے دعا کرنے والے لب خوموش ہیں۔ ماں کے دل میں اولاد کے لئے محبت کے تیل سے جلنے والا چراغ کبھی بھی نہیں بجھتا۔
لبوں پہ اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی
بس ایک ماں ہے جو مجھ سے خفہ نہیں ہوتی
دنیا کے تمام بڑے بڑے عقل و خرد کے مالک افراد کی یہ متفقہ رائے ہے کہ کائنات کے اندر اللہ رب العزت کی طرف سے بنی نوع انسان کو ودیعت کی گئی بے حساب نعمتوں میں سب سے قابل فخر اور قابل تعظیم نعمت ماں کی ذات ہے۔ اپنے گناہگار بندے کے ساتھ اپنی محبت کو ماں کی اولاد سے محبت سے ستر گنا زیادہ قرار دیکر خالق کائنات ماں کی محبت کی اہمیت کو اجا گر کر تے ہیں۔
ماں سے یہ پوچھا گیا ہے۔ کہ اللہ رب العزت نے جنت کو آپ کے قدموں کے نیچے رکھ کر جس اعزاسے آپ کو نوازا ہے اس کے متبادل آپ کو اگر کسی اور چیز کا تقاضا کرنے کو کہا جائے گا تو آپ کیا مانگیں گی۔ ماں کی طرف سے جواب آتی ہے۔ کہ ایسی صورت میں اپنے رب سے اپنی اولاد کے لئے نصیب لکھنے کا اختیار مانگوں کی۔
سرکار دو عالم ﷺ کے فتح مکہ کے بعد اپنی والدہ محترمہ کے مزار پر جا کر ماں کی یاد میں مبارک آنکھوں سے آنسوؤں کی سوغات پیش کر تے ہوئے یہ ارشاد فرمایا “اگر میری والدہ محترمہ زندہ ہوتی اور نماز کے دوران مجھے یا محمد ﷺ کہکر پکارتیں تو میں نماز توڑ کر لبیک یا امی کہکر حاضر ہوتا”ماں کی عظمت پر دلالت آئنہ دار ہے۔ مختصر یہ کہ خوش قسمت ہے وہ اولاد جو ماں جیسی عظیم ہستی کو راضی کر کے ان کے قدموں کے نیچے سے جنت کے حصول کے لئے سرگرم عمل رہیگا۔ اور ان جذبات سے سرشار ہوگا
شیرین نانیئی مہ خوش نانیئی تہ کو شکوتے غیری آسوم
محبتو ووریہ ٹیپ کیہ کوشکہ کی بوردی آسوم