فطرت کے اثرات ،،،تحریر: اقبال حیاتؔ آف بر غذی

Print Friendly, PDF & Email

فطرت کے اثرات
ایک بادشاہ ہر زی روح کی فطر ت کو نا قابل تبدیل تصور کر تا تھا۔ اور اس کا وزیر اسے تر بیت سے تبدیل کئے جانے کا قا ئل تھا۔ ایک رات بادشاہ فرمان شاہی تحریر کرنے کے لئے وزیر کو دربار میں طلب کئے ہیں اور وزیر فطرت سے متعلق اپنے موقف کے ثبوت کے طور پر اپنی پالتو بلّی کو ساتھ لے گئے ہیں۔ اور دوران تحریر بلّی اپنے سامنے والے دو ٹانگوں سے وزیر کے لئے چراغ پکڑ رکھی ہے۔ وزیر نے اس عمل کو اپنے موقف کا منہ بولتا ثبوت گردانا ہے۔ دوسری رات بادشاہ اس منظر کا دوبارہ مظاہر ہ کرنے کے لئے وزیر کو طلب کئے ہیں اور اپنے ایک نوکر کے ذریعے ایک زندہ چوھا پکڑ وا رکھے ہیں۔ جو نہی وزیر نے لکھنے اور بلّی چراغ تھامنے کے عمل کا مظاہر کرنے لگے تو بادشاہ کے اشارے پر چوھے کو چھوڑا گیا۔ اور بلّی کی نظر اس پر پڑتے ہی چراغ پھینک کر اس کے پیچھے دوڑ پڑی یوں بادشاہ نے تربیت کے زریعے فطرت کی تبدیلی کے سلسلے میں وزیر کے موقف کا پول کھول دیا۔
یہی کیفیت انسان میں بھی پائی جاتی ہے۔ اور عموماً فطرت کو چھوڑنے کا عمل بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ خصوصاً خواتین کی فطرت میں تبدیلی کا تصور حماقت کے مترادف ہے۔ عورت جہاں ماں، بہن اور بیوی کی صورت میں محبت کی دیوی نظر آتی ہے وہاں ساس، بہو اور سوکن کے روپ میں وہ نفرت کے ایک مجسمے کے رنگ میں ڈھل جاتی ہے۔ بسا اوقات پوری خاندانی زندگی پر عورت کی اس فطرت کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور ایک ہنستا بستا خاندان کسی بھی لمحے عورت کی اس فطرت کا شکار ہو کر جنگ و جدال اور باہم مشت و گریبان ہونے کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔ اور مذکورہ رشتوں کے ساتھ اپنی خدا واسطے کی دشمنی سے گھر اجاڑ دیتی ہیں۔ اس قسم کے ایک واقعے میں چترال کے ایک نواحی گاؤں میں ماں نے بیٹے کو اپنے دوبچوں کی ماں، بہو کو طلاق دینے پر مجبور کی ہے۔ اور وہ بے چارہ کسی متعلقہ اتھارٹی سے اس مطالبے کے بارے میں رائے پوچھنے پر اس خدا کے ولی نے آنکھیں بند کر کے ماں کے حکم کی تعمیل کا فرمان جاری کئے ہیں۔ اور یوں اس عمل کو کرایا گیا جس کے جائیز ہوتے ہوئے بھی اللہ ربّ العزت نا پسند کر تے ہیں۔ اور شیطان میاں، بیوی میں جدائی کے عمل کو اپنا سب سے زیا دہ پسندیدہ فعل تصور کر تے ہیں۔ اور ہمارے عظیم پیغمبر ﷺ بھی بہترین شخص اس کو قرار دیتے ہیں جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کر تا ہواور یوں عورت کی فطرت کے ہاتھوں بلاوجہ رشتے ٹوٹ گئے اور بچے یتیمی کی کیفیت سے دوچار ہوئے۔ حالانکہ معاشرتی زندگی کے اندر اسلام جس طرح آپس کے حقوق متعین کئے ہیں وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انسانوں میں باہمی رابط قائم کرنے کے آئینہ دار ہیں والدین کے حقوق جہاں مسلمہ ہیں اور ان پر دو رائے نہیں ہوسکتی وہاں اپنا سب کچھ چھوڑ کر میکے سے جڑنے والی بہو بھی عزت و توقیر کے حقدار ہوتی ہے۔ وہ اخلاقی طور پر سسرال والوں کی خدمت کر سکتی ہیں مگر اسے گھر کے اندر نوکرانی کی حیثیت دینے کا حق کسی کو حاصل نہیں۔ البتہ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بہو کی طرف سے سسرال والوں اور بچوں کا اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے نتائج سے زندگی ہی میں واسطہ پڑے گا اور “جو بوئے گا وہ کاٹے گا”کی کیفیت سے دوچار ہونا یقینی امر ہے۔ اس لئے اگر ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھتے وہئے زندگی کے شب وروز گزارے جائیں گے تو اسکی حلاوت محسوس کی جائیگی بصورت دیگر دلوں کے اندر باہمی نفرت اور ایک دوسرے پر بالا دستی کے حصول کے تصورت سے جیا جائیگا تو جینے کی حقیقی لذتوں کو ترسنا ہوگا۔
٭٭٭٭