ہم اور ہمارے حکمران
ایک بندہ خدا گھٹنوں کے بل گھسٹ کر سڑک کے کنارے جب قرار لیا۔ ہاتھ پر کیچڑ لگے تھے۔ انہیں رگڑ کر خشک کرنے کی کوشش کی اور ہر گزرنے والے کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بندگان خدا کے سامنے ہاتھوں کو پھیلائے تو آنکھیں اس پر ٹک کر رہ گئیں۔ان کی حالت زار کو دیکھ کر جگر میں سوزش کا احساس ہوا۔ تھوڑی دیر بعد بھیگی آنکھوں کے ساتھ گناہ آلود ہاتھ بے ساختہ اوپر کو اُٹھ گئیں۔اپنی صحت کی نعمت عظمیٰ کے لئے رب ذولجلال کے شکرئے کی ادائیگی میں الفاظ دل کے نہاں خانے سے لاوے کی صورت میں زبان کو چھو کر باہر نکلے۔اور اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست کے ارباب اختیار ایسے بے سہارا اور مجبور محض شہریوں کے حقوق کی ادائیگی کے ضمن مں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض میں کوتاہی اور اپنی اور اپنی اولاد کی ہی دنیا سنوارنے کے لئے قومی خیانت کے ارتکاب پر غصے سے بدن میں کپکپی پید ا ہوئی۔ قومی خزانے کو یتیم کا مال سمجھ کر حفاظت کرنے کی بجائے شیر مادر سمجھنے والے حکمرانوں کی بدعنوانیوں کے بارے میں آئے دن بیرونی دنیا میں سیکنڈل منظر عام پرآتے ہیں۔اور ان کی طرز حکمرانی پر انہیں عار دلاتے ہیں۔ بدعنوانی کے ایسے مشاہدات ملتے ہیں جنہیں تحریر میں لانے سے قرطاس ابیض کا بھی منہ کالا ہوجاتا ہے۔اور عقل و خسرو کے مالک انسان ایسے مال خبیثہ سے اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہوئے بھی خوف خدا اور شرم وحیا کا احساس نہیں کرتے۔اور اپنے ہی ہاتھوں چند دنوں پر محیط زندگی کی لذتوں کے لئے ان کا عقبیٰ خراب کرتے ہیں۔ رو سیاہی کا یہ عمل نچلی سطح سے لے کر اوپر تک جارہی ہے۔ اورزندگی کے ہر شعبے میں مسلمان قومی خیانت کے ارتکاب کا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ قومی خزانے سے کوئی رفاحی کام کرکے اسے شہریوں کا حق تصور کرنے کی بجائے احسان کے طور پر جتائے جاتے ہیں۔ اور سڑکوں کے آس پاس ہاتھ پھیلائے بھیگ مانگنے والے انسان انہیں نظر نہیں آتے۔ اس قسم کی طرز حکمرانی سے جہاں مملکت خداداد کی جگ ہنسائی ہوتی ہے وہاں اسلام کے عادلانہ نظام پر بھی حرف آتا ہے۔ ان کی طرز حکمرانی کو اگر اسلامی تاریخ کے آئینے کے سامنے لایا جائے تو اپنے اسلاف کے ساتھ ان کی دور تک بھی نسبت نظر نہیں آتی۔ابو موسیٰ اشعری ؓ بیت المال خالی ہونے کے بعد اسکی صفائی کے دوران مٹی کے نیچے ایک دینا ران کے ہاتھ لگتا ہے جسے اٹھا کر حضرت عمر ؓ کے چھوٹے فرزند کو دیتے ہیں۔ اپنے بیٹے کے ہاتھ میں دینار دیکھ کر حضرت عمر ؓ اس کے بارے میں معلومات کر کے سیدھے ابو موسیٰ اشعری ؓ کے ہاں جا کر ان سے کہتے ہیں کہ بھائی تمہیں عمر کی اولاد سے ایسی کونسی دشمنی ہے کہ جہنم کے آگ کو ان کے ہاتھ میں تھماتے ہیں۔ یہ کہہ کر ناراضگی کے ساتھ دینار ان کو واپس کر کے بیت المال میں رکھنے کی ہدایت کر تے ہیں۔ اسی طرح سیدنا عثمان بن عفان ؓ سب سے مالدار صحابی تھے۔ آپ نے بارہ سال سے زیادہ عرصہ بطور خلیفہ راشد خدمات سرانجام دیں اور بیت المال سے کچھ نہیں لئے۔ شہادت کے وقت ان کی ساری دولت صرف ہوچکی تھی اور انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنے مکان کی چھت سے اعلان فرمایا کہ میرے پاس صرف دو مکان ہیں ایک مکہ میں اور دوسرا مدینہ میں۔ اور مکہ اور مدینے کے درمیان سفر کے لئے صرف دو اونٹ ہیں۔ کپڑوں کے صرف دو جوڑے ہیں ایک دھلواتا ہوں اور دوسرا پہنتا ہوں۔ اس کے علاوہ میری کوئی جائیداد نہیں۔ آپ کے خون کے پیاسے فسادی بھی آپ کے اس بیان پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ کیا شان ہے اسلام کے ان حقیقی سپوتوں کی۔
خدا رحمت کند آن عاشقان پاک طینت را
٭٭٭٭