دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔خاک میں کیا صورتیں۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

درمیانے قد کے فربہ بدن۔۔۔ چمکتے مسکراتے چہرے پر نشیلی آکھیاں۔۔۔۔ لب لعلین پہ مسکراہت۔۔۔۔۔۔۔ چکمتے دانتوں سے دودھ ٹپکے۔۔۔۔لب ہلیں تو لفظ موتی بن کے گریں۔گرجدارآواز۔۔۔۔ الفاظ پہ قابو۔۔۔ جملے مدلل۔۔۔ انداز فلسفیانہ۔۔ کوٸی موضوع چھیڑے تو تشریح کے پل باندھے۔۔۔۔جس عہدے پہ رہے اس کو شہرت دے بسے۔۔یہ بقول ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی “چھوٹے شہر کا بڑا دانشور” تھے۔۔۔ نام عصمت عیسی خان اپنے بابا غازی محمد عیسی کے نام کی لاج رکھنے کے لیے ابو نے نام رکھا تھا۔وجیہ صورت اور کرشماتی شخصیت تھے۔۔۔وکالت کی اعلی تعلیم حاصل کی۔ سرکاری وکیل بن گئے۔پبلک پراسیکیوٹر کے عہدے تک گئے۔۔۔ انیس گریڈ کے أفیسر بنے۔۔۔ پنشن لی۔۔ پرائیویٹ پریکٹس کی اور بہتر سال کی بھر پور زندگی گزارنے کے بعد 20 جولاٸی 2024 کی رات گیارہ بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔۔یہ اگر مرحوم کا پروفاٸل ہوتا تو لکھنے کے لیے اور کیا بچتا لیکن یہ پروفاٸل ہر گز نہیں۔پروفاٸل ریچ ہے اور بندہ بے مثال ان کی شخصیت کے ہر ہر پہلو پر لکھنے کو دل چاہتا ہے۔ وہ گاٶں اجنو میں مصطفی کمال کے ہاں پیدا ہوۓ گاٶں کے معتبر قبیلہ باٸیک سے تعلق تھا۔۔ انہوں نے گاٶں کے پرائمری سکول سے اپنی سکولنگ کا آغاز کیا ابو مصطفی کمال خود استاذ تھے۔گورنمنٹ پرائمری سکول اجنو سے پانچویں پاس کیا گورنمنٹ مڈل سکول کھوت پھر گورنمنٹ ہاٸی سکول بونی سے تعلیم حاصل کی۔دسویں پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج چترال سے تعلیم حاصل کی پشاور لا کالج سے ایل ایل بی کیا۔کالج اور یونیورسٹی کے زمانے میں طالب علم رہنما کے طور پر سامنے آۓ وہ شعلہ بیان مقرر تھے۔شخصیت کرشماتی تھی جوانی جوبن پہ تھی لیڈرشپ بولنے لگی۔مولانا مودودی سے متاثر تھے بہت زیادہ پڑھاکو تھے دماغ میں علم کوٹ کوٹ کر بھر گیا۔پی ایس أٸی بنا تو اپنی قابلیت سے اس عہدے کو نمایان کیا۔۔۔ پی پی بنا تو یہ عہد ایک مثال بن گیا۔انہوں نے بہت جلد اپنے آپ کو منوالیا اور معاشرے کے لیے مثال بن گئے۔ان کو کرمینل کیسز کا بابا کہا جاتا تھا۔وہ جب عدالت میں جرح،ارگو اور کیس کی وضاحت کرنے لگتے تو عدالت مبہوت ہو کر رہ جاتی۔۔ان کو بات کرنے پہ ملکہ حاصل تھا۔لکھنے پہ آتے تو قلم کے نوک سے جھرنے پھوٹتے۔ہر موضوع پہ بات کرتے اور موضوع کا حق ادا کرتے۔۔سٹیج اس کے ساتھ سجتا۔تقریر کرنے لگتے تو غالب یاد آتا۔۔۔بات پر واں زبان کٹتی ہے۔۔۔وہ کہے اور سنا کرے کوٸی۔۔ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے جس محفل میں ہوتے اس کے میر محفل بن جاتے۔ان کے بابا کی تلوار کی کاٹ ان کے قلم کی نوک میں آ گیا تھا۔سخت محنتی اور منتظم تھے۔وقت ضاٸع نہ کرتے۔اپنے پیشے سے محبت تھی اس کو خوب نبھاتے۔بڑی تیاری سے عدالت میں جاتے۔سیاست کے گرو تھے۔سیاسی لوگ ان کے مشوروں کو بڑی اہمیت دیتے۔ملنسار تھے ہر ملنے والے کو مرعوب کرتے۔رشتے نبھاتے۔ ڈھارس بندھاتے۔بچوں سے بے مثال محبت تھی۔گھر بڑا پیارا ماحول میں رہتے۔۔بڑے خوش خوراک اور خوش لباس واقع ہوۓ تھے۔ڈیوٹی سے گھر جاتے پھر گھر سے باہر نہیں نکلتے کتابوں میں محو رہتے۔بڑے خوش لباس تھے۔نفاست پسند اور سجیلے تھے۔بڑے اداروں میں لکچروں پہ بلاۓ جاتے۔فنکشنس میں تقاریر کے لیے مدعو کیے جاتے۔وکلاء اپنے کیسز کے لیے مشورے لیتے۔علمی راہنماٸی دیتیاور مشوروں سے نوازتے۔ذہانت اچھی تھی۔حوالاجات معتبر ہوتے۔ بزلہ سنج تھے ان کی محفل میں بوریت محسوس نہ ہوتی۔ انہوں نے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلاٸی اکلوتا بیٹا سول جج بن گیا تو کہا مجتبی خان اس عہدے کی لاج رکھنا۔بیٹیاں محکمہ تعلیم میں اعلی عہدوں پر فاٸز ہوٸیں۔انہوں نے باہر ملکوں کا سفر کیا الاظہر یونیورسٹی اور مصر کے سفر کی یادیں میٹھی کرکے سناتے۔بڑے ادبی رہے۔۔مختلف مقالات مختلف رسالوں میں شایع ہوۓ ۔۔انٹلکچول فارم انواز کے پلیٹ فارم میں أپ سیلکچر دلواۓ جاتے۔۔ جو شاٸع شدہ مجلے میں شامل ہیں۔۔ان کی چار مختلف موضوعات پر کتابیں زیر طبع تھیں کہ اجل نے قلم ہاتھ سے چھین لیا۔۔چترال اپنے ایک علمی فرزند سے محروم ہوا۔۔۔ان کی نماز جنازہ پریڈ گراونڈ چترال اور ان کے اباٸی گاٶں اجنو میں بے مثال رہیں۔۔اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت عطا کرے