دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔”لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں “

Print Friendly, PDF & Email

اب پتہ چلا ہے کہ ہم انسان کتنے غیر سنجیدہ اور بے اعتبار ہیں۔۔ہم میں صبر نام کی کوٸی چیز نہیں۔ہم نے شاید اس وجہ سے سچ کو کڑوا کہا تھا حالانکہ سچ تو تریاق ہے۔سچ زندگی ہے۔۔سچ سدا بہار ہے۔ہم بات کو بتنگڑ بنانے میں جو لذت محسوس کرتے ہیں شاید کوٸی مخلوق ایسا ہو۔۔ہم جھوٹ سے متاثر ہوتے ہیں حال یہ کہ ہم سو فی صد سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔۔یہ ڈرامے ان کے کردار،یہ فلمیں ان کے مکالمے اور کردار،ان کے لباس تک جھوٹے ہیں لیکن ہم متاثر ہیں۔شاید اس لیے ہمیں حقیقت کی بجاۓ مجاز میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔پہلے ہم اکثر ہنگاموں سے بے خبر ہوا کرتے تھے۔اگر کوٸی خبر ہوتی بھی تو وہ ہم تک پہنچتے پہنچتے بے اثر سی ہوجاتی تھی اس کی اہمیت ختم ہوچکی ہوتی اب ہر خبر تازہ ہے گرم ہے اور اثر رکھتی ہے۔تب لوگوں کو چاہیے تھا کہ زبان کو لگام دیتے بات تولتے پھر بولتے۔ایسا نہیں ہوتا بس پھٹ پڑتے ہیں جو منہ پہ آۓ کہہ ڈالتے ہیں۔ملک کا سب سے ذمہ دار کہ اس کے لفظ لفظ اس کی قوم اور ملک کی نماٸندگی کرتا ہو وہ بھی بولنے میں احتیاط نہیں کرتا تب لوگ اس کے لفظ لفظ اچھالتے ہیں افواہ بد نامی تک آجاتی ہے۔کسی کی زبان پھسل گئی غلطی سے کوٸی لفظ ادا ہوا اور وہ لفظ اتنا مشہور ہوا کہ ٹرم بن گیا۔ غالب نے کہا تھا۔۔۔غلطیہاۓ مضامین مت پوچھ۔۔۔۔لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں۔۔۔چترالی میں اس کے لیے بہت خوبصورت محاورہ ہے ” تھورو گولوغ کوریک ” یعنی کسی کے منہ سے رال ٹپکا تو لوگوں نے کہا کہ ندی بہہ رہی ہے۔۔سوشل میڈیا نے کوٸی کسر چھوڑی نہیں۔۔جو سب سے زیادہ مشہور ہے وہ سب سے زیادہ میڈیا کی قیدی ہے۔انگریزی زبان کے الفاظ “ٹرنڈ”۔۔”واٸرل” اسی میڈیا کی بدولت مشہور ہوگئے ہیں۔۔سوال یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم غیر سنجیدہ کیوں ہوگئے ہیں اگر کوٸی ہمارے وزیر اعظم یاحکومت کے کسی ذمہ دار سے کہہ دے کہ پالیسی بیان دے دیں تب بھی وہ اس کو سنجیدہ نہیں لے گا چاہیۓ کہ اس بیان پہ پورا ہوم ورک کیا جاۓ ڈرافٹ تیار کیا جاۓ ہزار دفعہ سوچا جاۓ لفظ لفظ پر غور کیا جاۓ تب اس کو تحریری بھی زبانی بھی پیش کیا جاۓ یہ ریاست کی پہچان بن جاۓ۔۔ہمارے پاس کہنے کو کل کچھ اور تھا آج کچھ اور ہے۔۔ذمہ دار مذہبی سکالرز بھی بات کرتے ہوۓ اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں پھر اس پر وہ ہلاگلہ ہوتا ہے کہ دین کے اقدار تک کوخطرہ لاحق ہوتا ہے۔ہماری پسند نا پسند ذات تک محدود ہوتی ہے۔اگر کوٸی بات ہماری منشا کے خلاف ہے تو اس کے سچ ہونے،حقیقت ہونے،درست ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔جی چاہتا ہے کہ حالات سے باخبر ہونے سے بہتر ہے کہ بے خبر رہا جاۓ۔کم از کم بیسکونی تو نہیں ہوگی۔۔اگر معمولی نوکر روز یہ سنتا ہو کہ پنشن بند کیا جارہا ہے ادارے نجی تحویل میں دیے جارہے ہیں تنخواہیں جاٹی جارہی ہیں ادارے ختم کیے جارہے ہیں۔پھر کس طرح توقع کی جاۓ کہ وہ نوکر دل لگا کے کام کرے گا صداقت کا دام تھامے رکھے گا۔روز بد عنوانی،بد دیانتی کی خبریں ہیں اب بندہ کس طرح اپنے آپ کو محفوظ سمجھے۔روز مایوسیاں ہیں خوف ہے وہ زندگی کو غنیمت کیا سمجھے۔آج کل کو بے چینی اور بے سکونی کا دور کہاجاسکتا ہے کوٸی اس کو آگاہی کا دور کہے تو اس کی مرضی ہے۔۔۔