داد بیداد۔۔یر قان کی یلغار۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

نئی خبر اخبارات میں آگئی ہے کہ پا کستان کو یر قان کی بیماری کے اعداد و شمار میں دنیا کا اولین ملک قرار دیا گیا ہے ورلڈ ہیلتھ ارگنا ئزیشن (WHO) نے جو تازہ ترین رپورٹ جا ری کی ہے اس میں بتا یا گیا ہے کہ پا کستان میں یر قان کے بیماروں کی تعداد ایک کروڑ 20لا کھ ہو گئی ہر سال اس تعداد میں ڈیڑھ لا کھ مریضوں کا اضا فہ ہو تا ہے تشویشنا ک بات یہ ہے کہ پا کستان میں یر قان سے بچاؤ کی احتیا طی تدا بیر کا فقدان ہے اور یر قان کی ویکسین بھی دستیاب نہیں ہو تی اس سے پہلے پو لیو، امراض قلب، امراض گردہ، امراض مثا نہ اور امراض معدہ کے حوالے سے پا کستان کی عالمی رینکنگ کو خرا ب قرار دیا جا تا ہے اب یر قان کے حوالے سے تشویش نا ک خبر آگئی اللہ جا نے آگے جا کر مزید کتنے امراض کے حوالے سے پا کستان کی رینکنگ عام معیار سے نیچے گر جا نے کی خبریں آئینگی! یر قان جگر کی بیماری ہے اور اس کے کئی اقسام ہیں ان میں سے بعض قسموں کو خطرنا ک قرار دیا جا تا ہے، ہیپا ٹائٹس سی ان میں شا مل ہے اردو میں اس کو کا لا یر قان کہا جا تا ہے یہ ان بیماریوں میں سے ایک ہے جو آلو دہ پا نی پینے سے پھیلتی ہیں اس کے جر اثیم انسا نی فضلے میں بھی پرورش پا تے ہیں، ہسپتالوں میں آلو دہ اور استعمال شدہ سرنج کے استعمال سے بھی ایک انسان سے دوسرے انسان کے جسم میں منتقل ہو تے ہیں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہسپتال کا عملہ اس بیماری سے بہت جلد متاثر ہوتا ہے، بیماری کی ابتدائی علا مات مثلا ً آنکھوں کی زردی، پیشاب کی زردی اور بھو ک کا مٹ جا نا اکثر ظا ہر نہیں ہو تے، صرف ٹیسٹ کرنے سے ان علا مات کا پتہ لگتا ہے، رفتہ رفتہ بخار اور بدن کی سستی ظا ہر ہو کر مریض کو بستر سے لگا دیتی ہیں، جگر سکڑ تا ہے بدن میں گلو کو ز کی مقدار کم ہو تی ہے پیٹ میں پا نی جمع ہو جا تا ہے، خون کی الٹیاں انے لگتی ہیں اور مریض پر غشی کے دورے آنے لگتے ہیں اس مر حلے میں یہ بیماری جا ن لیوا صورت اختیار کر لیتی ہے بیماری کے پھیلنے کی شرح بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا نظام معا لجہ درست کا م نہیں کر رہا عوام کے اندر حفظا ن صحت کا شعور نہیں ہے پا لیسی سازوں کو لمبے عرصے کے لئے غیر متعلقہ اور غیر مفید، غیر ضروری کا موں میں لگا یا گیا ہے مثلا ً برٹش پا رلیمنٹ اور امریکی کا نگریس میں حفظان صحت کے اقدامات کی پا لیسی پر کئی دنوں تک بحث ہوتی ہے پھر معاملہ قائمہ کمیٹی میں جا تا ہے قائمہ کمیٹی کی سفارشات کو پارلیمنٹ منظور کر تی ہے منظوری کے بعد قانون بن جا تا ہے اور متعلقہ اداروں کے سر کاری حکام اس پر عملدرآمد کر کے پا رلیمنٹ کو رپورٹ کر تے ہیں ہمارے ہاں ایسی قانون سازی ہم نے کبھی نہیں دیکھی کبھی نہیں سنی، ہم نے پارلیمنٹ میں عوامی مفاد پر بحث مبا حثہ کبھی نہیں دیکھا، ہمارے ہاں حفظان صحت یا تعلیم کی اہمیت پر قائمہ کمیٹی کبھی نہیں بیٹھی یہاں غیر متعلقہ امور پر گفت و شنید ہوتی ہے 25کروڑ کی آبادی میں 200(دوسو) خاندانوں کے کاروبار اور مفا دات پر بحث ہو تی ہے جس میں قانونی نکا ت کی جگہ ارکان پارلیمنٹ ایک دوسرے پر لعن طعن کر تے رہتے ہیں 76سالوں میں 61سال پارلیمنٹ کا وجود قائم رہا مگر کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو عوامی فلا ح و بہبود کا کوئی مسئلہ اٹھا نے یا کوئی بل پیش کرنے کی ہمت نہیں ہو تی اس لئے آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، پائیدار ترقی کے لئے 14اہداف (SDGs) اقوام متحدہ نے 25سال پہلے مقرر کئے تھے ان میں شہریوں کو پینے کا صاف پا نی فراہم کرنے کا ہدف (ٹارکٹ) بھی دیا گیا تھا اس کے لئے 10سال دیئے گئے تھے اور ممبر ملکوں کو 2010تک ان اہداف کو حا صل کرنے کا پا بند بنا یا گیا تھا ہمارے پڑوسی مما لک نے اہداف حا صل کئے ہمارے ہاں 23سال گذر نے کے باؤ جود بھی کوئی ایک ہدف حا صل نہیں ہوا، پینے کا صاف پا نی اب بھی ایک خواب، سراب، ارزو اور تمنا کی طرح ہمارے ہاتھ ہے، یو نیسف کی حا لیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پا کستان میں شہر ی اور دیہی ابادی کو جو پا نی فراہم کیا جا تا ہے وہ 80فیصد آلو دہ ہے انسانی صحت کے لئے مضر ہے پا کستان میں 63فیصد بیماریاں آلو دہ پا نی کی وجہ سے پھیلتی ہیں یر قان بھی آلو دہ پا نی کی وجہ سے پھیل رہی ہے اور یر قان زدہ ملکوں میں پا کستان کا پہلا نمبر ہے۔