دھڑکنوںکی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔

Print Friendly, PDF & Email

۔۔۔”سرزمین چترال قدرتی آفات کی زد میں،،۔۔۔ چترال کی سرزمین پہاڑوں کے دامن میں چھوٹے چھوٹے دیہات پر مشتمل ہے۔۔زیادہ تر حصہ پہاڑی ہے۔جنگلات بہت کم ہیں یہ خشک پہاڑیاں بغیر جنگلات کی ہیں۔ان پر گرمیوں میں جب بارش ہوتی ہے تو ان کے اوپر جمی مٹی بہا کر نشیبی علاقوں میں سیلاب کی صورت میں لے أتی ہے اور تباہی مچاتی ہے۔پچھلے کچھ سالوں سے موسیمیاتی تبدیلی آئی ہے مون سون کے موسموں میں چترال میں ساٶن کی بارش بالکل نہ ہوتی تھی اگر کہیں ہوتی بھی تو بہت ہلکی ہوتی تھی لیکن آج کل مون سون کے موسم میں مون سونی بارشیں جم کے برستی ہیں اور تباہی مچاتی ہیں ساتھ گرمی کی شدت گلیشرز پگھلاتی ہے اورندی نالوں میں پانی کا بہاٶ دریا کو سرچھڑاتا ہے اور دریا کنارے زمین کی کٹاٶ سے مزید تباہی آتی ہے۔چترال میں زمینیں کم ہیں اورآبادی میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے مکانات بن رہے ہیں۔یہ مکانات ندی نالوں کے ساتھ، دریا کنارے اور جہان بھی ایک بالشت زمین ملتی ہے وہاں پہ رہاٸشی گھر بن رہیہیں۔سیلاب آتے ہیں تو تباہی مچاتے ہیں گاٶں کے لوگوں کی حالت اس سے بھی ابتر ہے صاحب جاٸیداد کوئی نہیں جس کو جہان بھی چھوٹی سی زمین ملی ہے وہاں پہ گھر بنایا ہے۔سن دوہزارپندرہ سے گرمیوں میں مسلسل باریشیں ہوتی ہیں تو سیلاب تباہی مچاتاہے ابھی ایک اندازے کے مطابق سینکڑوں افراد سیلاب کا لقمہ بنے ہیں۔ بے شمار گھر سیلاب میں بہہ چکے ہیں اور ہزاروں ایکڑ زرعی زمینیں دریا برد ہوچکی ہیں۔لوگ مجبور ہیں حکومت کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کر سکتی۔جہان پل گرتا ہے پھر اس کا خیر خبر کوئی نہیں لیتا۔بجلی خراب ہوتی ہے تو اس میں کوئی ترجیحی بنیادوں پہ کام نہیں ہوتا۔سڑکیں ٹوٹتی ہیں تو اسی طرح کھنڈر رہتی ہیں بات وساٸل کی کمی کی ہے یاکارکردگی میں سقم ہے ہمارا کوئی کام ڈھنگ کا نہیں ہوتا۔اس بار تیس آگست نے پھر تباہی لائی۔دروش، بمبوریت،کاری،کوغذی،موری بالا،ریشن بریپ گاٶں میں تباہی آئی۔گھر،کھڑی فصلیں زمینات، سڑکیں، نہریں، بجلی کا نظام درہم برہم ہوا۔تورکھو کے آخری گاٶں ریچ میں تو بربادی کا خوفناک منظر دیکھنے کو ملا۔باون گھرانے برباد ہوۓ۔ تین بندوں کی جانیں گٸیں شہید ہوۓ اور پورا گاٶں صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔اس بار نماٸندے دکھ درد میں شریک رہے۔کل شام میں چترال سے بمشکل اپنے گاٶں پہنچا تھا کہ سرشام ڈپٹی سپیکر کی گاڑی متاثرہ گاٶں سے واپس آتی ہوئی دیکھی گئی میں راستے میں کھڑا تھا میں نے بڑی عقیدت سے سپیکر صاحبہ کو سلام کیا سلام کا جواب مل گیا۔تحصیل چیرمین میر جمشید الدین پہلے روز ہی سے وہاں پہنچے تھے اور خود مدد کر رہے تھے۔منہاج الدین سپیکر صاحبہ کے ساتھ تھے۔اور دکھ کی اس گھڑی میں شریک تھے۔ڈی سی اپر چترال،اے سی اپرچترال شاباش کے مستحق ہیں۔پولیس اور انتظامیہ مستعد ہے۔مخیر حضرات اور غیر سرکاری ادارے، فلاحی ادارے سب کی توجہ چاہیے ہوگی۔پسماندہ گاٶں میں پسماندہ لوگوں پہ مصیبت آئی ہے ان کی جزوی مدد سے کام نہیں بنتا۔اگر حکومت دلچسپی نہ لے تو یہ مصیبت ٹلے گی نہیں۔ہمارے محکموں میں غفلت بہت ہے۔دوہزار پندرہ کے سیلاب میں میرا گاٶں تباہ ہوگیا تھا۔۔لاٸین ڈیپارٹمنٹ کے الگ الگ سروے تھے روز آتے روز سروے کرتے کھانا کھاتے چلے جاتے ہم اس امید پہ زندہ رہے لیکن پھر ہمیں ایک روپیہ بھی نہ ملا۔میرے گاٶں کے ایک بوڑھے بزرگ نے کہا تھا۔۔بیٹاإ اگر ہمارے ان کھانوں کی قیمت بھی ہمیں ملتی تو اچھا تھا۔ڈپٹی سپیکر صاحبہ ایک بیٹی ہیں ان کو درد کا زیادہ احساس ہوتا ہے ان شااللہ ان کی کارکردگی نمایان رہے گی۔ہماراچترال قدرتی آفات کی زد میں ہے۔اس کے لیے مستقل کسی مثبت لاٸحہ عمل کی ضرورت ہے۔کم از کم کسی ایسی محفوظ جگہ میں آباد کاری کی تاکہ لوگ سکوں کی نیند تو سو سکیں اورمزدوری کرکے شام کو اپنے بچوں کے ساتھ سکوں سے روکھی سوکھی کھا سکیں۔۔ قدرتی آفات کے مقابلے میں ہمارے پاس کوٸی واضح لاٸحہ عمل نہیں۔اس سلسلے میں مختلف این جی اوز لوگوں کی آگاہی کے لیے کوشش کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزاٸی ہونی چاہیے۔شاید ہمیں ان آفات سے مقابلہ کرنے کی عادت ہوجاۓ۔۔جس طرح جاپانیوں نے زلزلے کا مقابلہ کیا سنگاپور والوں نے اپی کیچڑ زدہ زمین سے سونا اگلوا رہے ہیں روس نے برف کا مقابلہ کیا۔۔مگر بد قسمتی سے ہم دہشت گردی اور شورش سے باہر نہیں نکلے۔اور نہلے پہ دہلا قرض لے کے کھا رہے ہیں۔