دادبیداد۔۔انٹر نیٹ ما فیا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

انٹر نیٹ اکیسویں صدی کی بڑی نعمت ہے اس نعمت کو اگر اس نا ہنجار دور کا عذاب کہا جا ئے تو بے جا نہیں ہوگا چاقو سیب کو بھی کاٹتا ہے، انگلی اور گلے کو بھی نہیں بحشتا انٹر نیٹ ہمیں مفید معلومات دیتا ہے بدلے میں ہمارا قیمتی وقت بر باد کر تا ہے بچوں کو ماں باپ اور بھا ئی بہنوں سے دور کر تا ہے دولت کو تباہ اور وقت کو برباد کر تا ہے، اہل علم اور اہل دانش کہتے ہیں کہ اپنا پیسہ اور اپنا وقت بر باد کرنا ہمارا اپنا قصور ہے اس میں بے جان اور بے زبان انٹر نیٹ کا کوئی قصور نہیں جن قوموں نے انٹر نیٹ ایجاد کیا ہے وہ اس کو بوقت ضرورت بقدر ضرورت استعمال کرتے ہیں 24گھنٹوں میں بمشکل ایک گھنٹہ انٹر نیٹ کو دیتے ہیں اس سے زیا دہ وقت نہیں دیتے، جن قوموں نے انٹر نیٹ بنا یا وہ اپنے بچوں کو اس کے قریب جا نے نہیں دیتے نا با لغ اولاد کے لئے اس مشین کو زہر قاتل سمجھتے ہیں ہمارے دوستوں کا خیال ہے کہ انٹر نیٹ آج کے دور کا جا م جم ہے، یہ وہ پیا لہ ہے جس میں جمشید کو اس کی پوری مملکت کا حال نظر آتا تھا پیا لہ ٹو ٹ گیا تو حکومت بھی چلی گئی اقتدار بھی نہ رہا غا لب کہتا ہے اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا جا م جم سے میرا جا م سفال اچھا ہے انٹر نیٹ کے بے شمار نا م ہیں ورلڈ وائڈ ویب سب سے مشہور نا م ہے اس کے اندر فیس بک ہے، واٹس ایپ ہے، ایکس ہے، میٹا ہے، چیٹ جے پی ٹی ہے، بپ جی ہے، ڈارک ویب ہے، ڈیپ ویب ہے، مصنو عی ذہا نت کا پورا جہاں اباد ہے یو ٹیو ب کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے، ٹک ٹو ک کی الگ دنیا ہے آپ کس کس کا نا م لینگے کس کس کو تلا ش کرینگے گویا زما نہ عہد میں اس کے ہے محو ارائش، بنینگے اور تارے اب آسمان کے لئے وطن عزیز پا کستان کے جن دیہات تک وائی فائی تھر ی جی اور فور جی جیسی چیزیں ابھی تک نہیں آئی ہیں ان دیہات کے لو گ بڑے سکون اور آرام کی زند گی گذار رہے ہیں، ان کو کسی چیز کی پریشا نی نہیں، کوئی ٹینشن نہیں ان کے بچے باغون، گلیوں اور جنگلوں میں صحت مند کھیل کھیلتے ہیں، بھو ک لگتی ہے تو گھر آجا تے ہیں، مگر جن شہروں اور قصبوں میں وائی فائی، تھری جی، فور جی وغیرہ نا موں سے نئی چیزیں آگئی ہیں وہاں بچے صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک انٹرنیٹ، یو ٹیوب وغیرہ کے ساتھ محو ہو جا تے ہیں ان کو نہ کھیلو ں کا ہو ش رہتا ہے نہ کھا نے پینے کی فکر ہوتی ہے نہ وہ ماں باپ کو پہچانتے ہیں نہ وہ بہن بھا ئیوں سے مانوس ہو تے ہیں، گھر کے اندر انجا ن اور نا مانوس مخلوق پل رہی ہو تی ہے، یہ ایسی سہو لت ہے جو جا پا ن، چین، کوریا، بر طا نیہ اور امریکہ میں بچوں کو دستیاب نہیں ہو تی، خطرنا ک دوائی کی طرح انٹر نیٹ پر لکھا ہوا ملتا ہے ”بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں“ پا کستان میں انٹر نیٹ جب پہلے پہل آیا تو بھا ری بھر کم ڈیسک ٹا پ کمپیو ٹر ہوا کر تے تھے پھر نسبتاً ہلکے لیپ ٹا پ کمپیو ٹر آگئے یہ بھی اچھا دور تھا پھر ایسا ہوا کہ مو بائل کے نا م سے معروف سمارٹ فون پر انٹر نیٹ آگیا مائیں ڈیڑ ھ سال کے دودھ پیتے بچے کو سمارٹ فون پر ٹام اینڈ جیری یا کو کو ملن یا سپائیڈر مین لگا کر دیدیتے ہیں بچہ اس کھلو نے میں کھو جا تا ہے، ماں دوسرے سمارٹ فون پر اپنے مشا غل میں مصروف ہو جا تی ہے گھر کے ڈرائینگ روم میں بھا ئی بہنیں اپنے اپنے سمارٹ فون کے ساتھ انٹر نیٹ میں کھو جا تے ہیں ماں با پ اپنی اولا د سے با ت کرنے کو تر س جا تے ہیں ہمارے دوست شاہ صاحب نے بچوں، پو توں اور نوا سوں کو ”انٹر نیٹ ما فیا“ کا نا م دیا ہے ہم نے کہا ما فیا کا لفظ بہت سخت لفظ ہے، تھوڑی سی نر می دکھا ؤ، شاہ جی کہنے لگے، بھئی نر می کیسے دکھا وں؟ یہ بھی ڈرگ ما فیا، کمیشن ما فیا، ڈالر ما فیا اور ٹمبر ما فیا کی طرح ہماری سو سائیٹی کا خون چوس رہا ہے ہماری اولاد کو ہم سے بیگا نہ کر رہا ہے، ہم نے کہا یہ عالمی مسئلہ ہے اس کا کوئی عالمی حل سامنے آئیگا، شاہ جی بولے بھئی پڑھے لکھے لو گوں کو یہ مسئلہ درپیش نہیں، تر قی یا فتہ قوموں کے لئے یہ مسئلہ ہی نہیں، یہ صرف ان پڑھ، جا ہل، گنوار اور اجڈ لو گوں کا پیدا کر دہ مسئلہ ہے اور ہم جیسے پسما ندہ قوموں کا مسئلہ ہے ؎
پا تے نہیں جب راہ چڑھ جا تے ہیں نا لے
رکتی ہے میری طبع تو ہو تی ہے رواں اور