داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔ بلبل ہزار داستان
خا نہ فرہنگ ایران پشاور کے ڈائریکٹر غلا م حسین فرگام نے چترال سے فارسی کے عالم اور ادب دوست استاد بلبل ولی خان کو بلبل ہزار داستان کا خطاب دیا تھا، شعبہ فارسی پشاور یو نیور سٹی کے سر براہ ڈاکٹر کے بی نسیم نے ایک مجلس میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ چترال کے دور افتادہ پہا ڑی علا قے کا استاد فارسی ادب میں پرائیویٹ امتحا ن دیکر شعبہ فارسی کے ریگو لر طلباء اور طا لبات سے زیا دہ نمبر کیسے لے سکتا ہے بلبل ولی خان کو دوبار براہ راست اور کئی بار بالواسطہ شیراز کے دورے کی دعوت دی گئی انہیں خا نہ فرہنگ ایران بلا یا گیا، انہیں مر کزفارسی پا کستان و ایران نے دو بار علمی مذاکروں میں بلا یا مگر ان کا حال ”زمین جنبد نہ جنبد گل محمد“ والا تھا اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت بھی قابل رشک دی تھی وسائل بھی قابل رشک دیئے تھے ان کا حال صادقین کی اس ربا عی کا مصداق تھا
مولا نے عدم رکھ دیا میرے آگے
دی لو ح قلم رکھ دیا میرے آگے
کو زہ دیا کوزے میں بھرنے کو
اک بحر کرم رکھ دیا میرے آگے
بلبل ولی خان نے دل میں ایک بات ٹھان لی تھی کہ پہاڑوں کی قید سے با ہر نکلنا نہیں ہے پہاڑوں کے پنجرے میں ہی زند گی کے شب و روز پورے کرنے ہیں چنا نچہ وہ اس پنجرے سے باہر نہیں نکلا، یہاں تک کہ پہاڑ وں کے دامن میں آسودہ خا ک ہو ابلبل ولی خان چترال کے پُر فضا مقام چرن اویر میں حا کم خان کے ہاں 1948ء میں پیدا ہوا، ان کے والد گرامی چترال سکا وٹس میں ڈر ل انسٹرکٹر تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی خد مات محکمہ تعلیم نے حا صل کی اور سٹیٹ ہا ئی سکول میں ہزاروں طلباء کے استاد ہو نے کا شرف ان کو حا صل ہوا بلبل ولی خان نے بھی سٹیٹ ہا ئی سکول سے میٹرک پا س کیا چترال سکا وٹس میں بھر تی ہوا قسم پیریڈ کے بعد ان کو فوجی ایجو کیشن میں انسٹرکٹر مقرر کیا گیا کچھ عرصہ بعد چھا ونی سے باہر آگئے افغا ن مہا جرین کے تحصیلدار مقرر ہوئے پھر محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم میں استاد لگ گئے، اس دوران پرائیویٹ گریجو یشن کر لیا انسٹیٹیوٹ آف ایجو کیشن اینڈ ریسرچ پشاور یو نیور ستی سے ریگو لر بی ایڈ کیا، ایم اے فارسی کا امتحا ن پرائیویٹ پا س کیا اور پبلک سروس کمیشن کا امتحا ن پا س کر کے پرنسپل مقر ر ہوئے، اس پو زیشن سے 2008میں ریٹا ئرمنٹ لے لی، 2022ء میں 74سال کی عمر میں آپ نے وفات پا ئی جب ہائیر سکینڈری سکول تخت بھا ئی کے پرنسپل تھے تو آدم خان صاحب کو ساتھ لیکر بو نیر بابا اور شلبانڈی دیوانہ با با کی زیا رت کو جا یا کر تے تھے اس لیے سوا نحی کہا نی ان کی عظمت کو بیان کر نے کے لئے کا فی نہیں ان کی عظمت کا راز افسیری میں نہیں درویشی اور قلندری میں پو شیدہ ہے، انہوں نے فارسی ادب کا عمیق مطا لعہ کیا تھا اس مطالعے نے ان کو فلسفہ اور تصوف کا گہرا ادراک عطا کیا انہوں نے رومی، حا فظ اور سعدی سے لیکر عطار، جا می اور بیدل تک اہم شعراء کے کلا م کا گویا رس نچوڑ لیا تھا ڈاکٹر کے بی نسیم اس بات پر حیرت زدہ تھے کہ بلبل ولی خان نے قصیدہ کے پر چے میں سب سے زیا دہ نمبر لینے کا اعزاز کیسے حا صل کیا؟ جب زبا نی امتحا ن کا مر حلہ آیا بلبل ولی خا ن اُن کے سامنے بیٹھ کر خا قا نی، قائی، انوری اور دیگر مشا ہیر اساتذہ کے کلا م سے مثا لیں دیکر صنا ئع و بدائع پر گفتگو کر نے لگے تو ان کو یقین آیا کہ اُس نے جو ہر قابل کو تلا ش کر لیا ہے مولانا روم کے کلا م میں مثنوی کے علا وہ دیوان شمس پر بھی ان کو عبور حا صل تھا اس میں ایک پیچیدہ نعتیہ قصیدہ ہے
اے شہہ خوبان دو عالم بحقیقی
کز معجزاو مہ شد شقاو شقیقی
یہ قصیدہ ان کو زبا نی ازبر تھا دھیمے لہجے میں گنگنا تے تو وجد میں آجا تے، پنجشیر کے قاری وحدت اور قاری عبد الرزاق بھی بیدل، رومی اور نا صر خسرو کا کلا م سننے کے لئے ان کے ہاں آیا کر تے تھے قاری وحد ت احمد شاہ مسعود کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں اور بقید حیات ہیں ان کا کہنا ہے کہ فارسی ہماری مادری زبان ہے اس کے باوجود بلبل ولی خان سے اس زبان کی شیرینی اور مٹھا س کو سما عت کر کے ہمیں جو خوشی ہو تی ہے وہ کسی اہل زبان کی زبا نی سن کر نہیں ہو تی ان کو اس بات کا دکھ ہے کہ ایسا نا بغہ روز گار عالم، ادیب اور دانشور چترال کے پہاڑوں میں گمنا می کی زند گی گذار کر راہی ملک عدم ہوا کسی کو کا نوں کان خبر نہ ہوئی بلبل ولی خان خو ش نویس بھی تھے گرم چشمہ کے سکول کی دیوار پر انہوں نے نا صر خسرو کے کلا م کی خطا طی کی تھی اُس کو دیکھ کر قاری وحدت کو خطا ط سے ملنے کا اشتیاق ہوا جو عمر بھر کی دوستی میں بدل گیا ہا ئی سکول ریشن میں ایک سخت گیر افیسر وقار احمد اچا نک معائینہ پر آیا تو پرنسپل بلبل ولی خان سیڑھی کی مدد سے دیوار پر خطا طی میں مصروف تھا وہ دیوار پر مصروف رہا افیسر معا ئینہ کر کے اپنے تا ثرات لکھ کر جا نے لگا تو پرنسپل نے دیوار ہی سے ہاتھ ہلا کر ان کو خد احا فظ کہا افیسر بھی پا یہ شنا س فن تھا اُس نے بر ا نہیں منا یا بلبل ولی خان نے مادری زبان کھوار میں جو شاعری کی وہ فلسفہ اور تصّوف کا گنجینہ ہے، عمر کے آخری حصے میں ان کے بھتیجے مجیب کو انکی خد مت میں دن رات حاضری کا مو قع ملا، دین محمد ندیم، اشرف ولی خان دینا ر ولی خان، عیسی خان اور اعجاز بھی ان کے وارث ہیں تا ہم جانشینی اور خر قہ پو شی کا شرف مجیب کو حاصل ہے۔