داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔سکول کے نا م
یہ ٹو ٹی پھو ٹی سی تحریر سکول کے نا م ہے سر کاری سکولوں میں اس سال بھی داخلہ مہم بہت زور و شور کیساتھ چلا ئی گئی اور بیحد کامیاب رہی اس سال سر کاری سکولوں کے پا س ایک اچھی مثال مو جود تھی مثال یہ تھی کہ 8بورڈ وں کے امتحا نات میں سر کاری سکولوں کے طلباء اور طا لبات نے ٹاپ ٹین پوزیشن حا صل کر لی اس میدان میں پہلی بار سر کاری سکولوں نے نجی سکولوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور یہ خبر پورے صوبے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی یہ ایسی خبر تھی جو خبر نگاری کی تعلیم میں ایسی ہے جیسے آدمی نے کتے کو کا ٹا ہوایسا کبھی نہیں ہوتا اس تعلیمی سال کی ایک بڑی خصو صیت یہ بھی ہے کہ 2022سے منتخب سر کاری سکولوں میں ”ڈبل شیفٹ“ کا آغاز کیا جا رہا ہے ڈبل شفٹ کو اردو میں ”دہرے اوقات کار“ کہا جا ئے تو اس کا درست مفہوم ملے گا اس طریقے سے ایک ہی عمارت، ایک ہی لیبارٹری، ایک ہی لائبریری اور ایک ہی سہو لت سے دہرا کام لیا جا تا ہے جو عمارت دن کے دو بجے بند ہوتی تھی اس عما رت میں رات 8بجے تک کام چلا یا جاتا ہے گویا دہرا فائدہ حا صل کیا جار ہا ہے ڈبل شفٹ کے تحت سینکڑوں سکولوں کو ترقی دی گئی ہے یعنی مڈل کو ہا ئی کا در جہ دیا گیا، ہائی کو ہا ئیر سکینڈری کا در جہ دے کر طلبہ کو گھر کی دہلیز پر اگلی کلا س میں پڑھنے کا زرین مو قع دیا گیا یہ حقیقت میں حکومت کا انقلا بی اقدام ہے جس کے اثرات آئیندہ بر سوں میں نما یا ں ہو کر سامنے آئینگے گذشتہ 9سالوں میں سرکاری سکولوں کی عمارتوں کو ایک ہی رنگ دے کر نما یاں کیا گیا ہے ہلکا زرد اور ہلکے نیلے کے امتزاج کارنگ دور سے لو گوں کو اپنی طرف متو جہ کر تا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ اس یک رنگی کے پس منظر میں کوئی سوچ، فکر اور منصو بہ بندی مو جود ہے دروازے کے اندر داخل ہونے کے بعد اساتذہ کرام کی سو فیصد حا ضری کے لئے مو ثر نگرا نی یا ما نیٹرنگ کا نظام اپنی جھلک دکھا رہا ہے اب وہ زما نہ نہیں رہا جب سکول ٹیچر دو بئی، کویت، اور سعودی عرب یا یو رپ میں نو کر ی کر تا تھا پا کستان سے تنخوا ہ لیتا تھا اور طلبہ کا وقت ضا ئع کررہا تھا زنا نہ سکولوں میں غیر حا ضری کی وباء مردانہ سکولوں سے زیا دہ تھی ما نیٹرنگ کا نظام آنے کے بعد بھی دو چار مہینوں تک اس کو مذاق سمجھا گیا مگر جب تنخواہ بند ہوئی یا تنخواہ میں کٹو تی شروع ہوئی نو کری سے ہاتھ دھو نے والوں کے نا م سامنے آگئے تو ما نیٹرنگ کو سنجیدہ لیا جا نے لگا یہاں تک کہ اس ”پہلو ان“ نے غیر حا ضر اساتذہ کو قابو کیا اور سکولوں میں بھوت اساتذہ کا تصور ختم ہوا ایک اہم واقعہ یہ ہو اکہ این ٹی ایس اور ایٹا کے ذریعے مشکل ٹیسٹ پا س کر کے اعلیٰ تعلیم یا فتہ اور قابل اساتذہ سکولوں میں آگئے ان کے آنے سے کمرہ جما عت کے اندر پڑھا ئی کا ما حول یکسر بدل گیا گپ شپ کی جگہ سنجیدہ پڑھائی آگئی جس کے مثبت نتا ئج سامنے آنے لگے سکول کے نا م یہ ٹو ٹی پھوٹی سی تحریر اس انقلا ب کی سند ہے جو گذشتہ 9سا لوں کے اندر صوبہ خیبر پختونخوا میں ایلمینٹری اینڈ سیکنڈری ایجو کیشن کے شعبے میں آیا ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یقینا یہ بات درست ثا بت ہوگی کہ ”جب پڑھے گا تو آگے بڑھے گا“ اب سیا سی قیا دت اور افسر شا ہی کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ تعلیم کے شعبے میں نظر آنے والی مثبت تبدیلیوں کو مزید رنگ و روغن دے کر آگے بڑھائیں اور صوبے کو انسا نی وسائل کی تر قی کے حوالے سے ایک مثا لی صو بہ بنا نے میں اپنا کر دار ادا کریں۔