دھڑکنوں کی زبان َ َ ۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات َ۔۔۔۔”سیاست۔۔۔سیاسی دنگل ”
چاہیے تھا کہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پہ ہوتے۔۔کوئی دوستی،رشتہ ناطہ،تعلق تعارف کام آتا۔۔اب نمایندوں کو جماعتوں پہ تکیہ ہے۔جماعتیں کسی کی کیا سپورٹ کریں وہ اہلیت کہاں دیکھتی ہیں ان کے اکاونٹ میں پیسے جمع کرنا ہے۔۔لوگ سیاست کو کھیل کہتے تھے ہمارا تلخ تجربہ ہے کہ سیاست گھناونا کھیل بن گئی ہے۔۔بس پیسہ پھینک تماشا دیکھ۔۔۔بہت کم ڈھنگ کے نمایندے پارلیمان میں ملتے ہیں۔یہاں تک کہ محکموں کے وزرا کو ان محکموں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ایک غیر متعلقہ بندے کو قلمدان پکڑایا جاتا ہے۔یہ لو اتنے فیس بھرو تعلیم کا قلمدان لے لو۔۔یہ لو سائنس کا قلمدان تمہارا خواہ تم سائنس کی شد بد جانتے ہو کہ نہیں۔یہ لو وزیر خارجہ بنو تمہیں دنیا سے متعلق کچھ معلومات ہوں کہ نہ ہوں۔۔اس سمندر میں ہیروں کا نام و نشان نہیں ملتا۔اب کی بار بلدیاتی انتخابات اگر غیر جماعتی ہوتے تو شاید کوئی”صلاحیت” سامنے آتی۔۔کوئی جذبہ کوئی محنت کوئی خلوص میدان میں اترتا۔یہ اس کی ذات کا امتحان ہوتا۔لو گ ان کو پرکھتے ان کو تولتے۔۔سیاست بھول جاتے۔۔۔پھر آگے ان کو موقع ملتا۔۔ان سے کام کرایا جاتا۔ایسا نہیں ہوتا۔۔دنگل سجتا ہے وہی آزمایے ہویے ہیں۔۔
نہ خنجر اٹھے گی نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمایے ہویے ہیں
جس نمایندے سے ملو اس کے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ایک کھسیانی ہنسی ہوتی ہے۔۔میں نے ایک نیے سیاسی نمایندے سے پوچھا بھائی سیاست میں نیے ہو کوئی ”ہوم ورک” کیا ہے اس نے قہقہا لگا کر کہا۔۔یار میں کوئی سکول میں ہوں کہ ہوم ورک کروں۔اور نہ کرنے پر استاد میرے ہاتھ پہ ڈنڈا مار کر مجھے سزا دے۔اس کے ساتھی میری کمایگی اور ان کے نزدیک میری ناسمجھی پہ خوب ہنسے۔۔اگر ایک بندے کو یہ بھی پتہ نہ ہو کہ وہ معاشرے میں سماجی خدمات کی بنیاد پر اپنا تعارف کراتا ہے۔بیلوث خدمت گار ہوتا ہے اس کو سیاسی”ہوم ورک ” کہتے ہیں۔۔اب اس سمے پارٹی آنکھیں بند کرکے کسی کو سپورٹ کرے تو وہ کیا نمایندگی کرے گا۔بڑے نمایندگی کے لیے انھوں نے پیسہ خرچ کیا ہے یہ واپس لینے ہیں۔خواہ عوام کی خدمت ہو یا نہ ہو جایدادیں بنانی ہیں۔عوام کی نمایندگی کے صدقے وہ ارب پتی بن جاتے ہیں۔اب جوڑ توڑ شروع ہے۔۔نمایندوں کی اہلیت ترجیح نہیں۔پارٹی سیاست ترجیح ہے۔جیت جائیں۔۔جیت کی ڈفینیشن کسی کو نہیں آتی۔جیت اس وقت ہوتی ہے جب نمایندگی کا حق ادا کیا جایے۔خالی سیٹ جیت نہیں کہلاتی۔بلدیاتی الیکشن میں صرف یہ فایدہ ہے کہ یہ الیکشن ترازو اور معیار ہیں پارٹی کی بنیادیں ان سے وابستہ ہوتی ہیں۔دنیا کی جمہوری ملکوں میں یہ معیار ہے لیکن ہمارے ہاں کیا معیار ہے۔۔ان کے نتائج خدمت نہیں۔یہ نمایندے پارٹی کی جڑیں اور عوام کا چہرہ نہیں نہ ان کے پاس ایسا موقع ہے۔لہذا یہ انتخابات غیر سیاسی ہوں۔۔ کہیں سے کوئی کام کا بندہ اٹھے اور آگے کوئی سیاسی پارٹی اس کو چرا لے۔ خرید لے۔کم از کم ایک فگر کا اضافہ تو ہوگا ایک اہل کے آنے سے ایک نااہل کم ہوگا۔ سیاست نا اہلوں کے ہاتھ میں جایے تو یہ بچوں کا کھیل بن جاتی ہے۔