چترال (نما یندہ چترال میل) ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میں قائم کورونا ویکسنیشن سنٹر میں شدید بد انتظامی دیکھنے میں آئی جہاں سینکڑوں افراد کاونٹر تک پہنچنے کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے آگے بڑھتے چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنے کی ایس او پی کی دھجیاں بکھیرتے رہے جن میں خواتین اور ضعیف العمر افراد بھی شامل تھے جوکہ دوردراز سے آئے تھے۔اس موقع پر موجود کئی افراد نے کہاکہ گزشتہ کئی دنوں سے ہسپتال کے کورونا سنٹر میں یہی صورت حال ہے جہاں کئی گھنٹوں تک یہی دھکم پیل کا سلسلہ جاری رہتا ہے کہ اتنے میں ہسپتال کا عملہ ویکسین کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں تو وہ واپس لوٹ جاتے ہیں ا وراگلے دن واپس آتے ہیں۔ عمر رسید ہ اور جوان خواتین کو بھی اس شوروغل میں بے بس پائے گئے جوکہ دوسروں کو دھکے دے کر آگے بڑھنے سے معذور تھے۔موقع پر موجود افراد کا کہنا تھا کہ ویکسنیشن کے لئے ایک سے ذیادہ ڈیسک قائم کرکے اس رش پر قابو پایا جاسکتا تھا لیکن ہسپتال انتظامیہ نے خاموشی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شمیم کو آرام وسکون کے ساتھ اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا پایا گیا جبکہ ویکسنیشن کے لئے آنے والوں کو درپیش مسئلے کے بارے میں انہوں نے کہاکہ اس نے سنٹر کا ابھی ابھی دورہ کرکے مشکل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اور اسے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے ذمہ داری ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر لویر چترال پر ڈالتے ہوئے کہاکہ ویکسنیشن کے لئے آنے والوں کی اکثریت کا تعلق کریم آباداور پرسان سے ہے جن کے لئے شوغور کے مقام پر سنٹر کھولنا چاہئے تھا۔ ڈپٹی کمشنر لویر چترال حسن عابد سے جب رابطہ کیا گیا تو وہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہاکہ وہ گزشتہ پندرہ بیس دنوں سے رخصت پر ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ پیش آیا ہوگا۔ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر ڈاکٹر حیدر الملک کے ساتھ رابطہ ان کے رخصت پر ہونے کی وجہ سے نہ ہوسکا۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر کی عدم موجودگی میں ویکسنیشن کے لئے فوکل پرسن ڈاکٹر فرمان نظار نے شوغور میں واقع بیس ہیلتھ یونٹ میں کورونا ویکسنیشن سنٹر کے قیام کو ناگزیر قرار دیا لیکن انہوں نے کہاکہ اس کے لئے ڈائرکٹر جنرل ہیلتھ سے منظوری لینا ضروری ہے جس کے لئے پروپوزل تیار ہے اور ڈی ایچ او ڈیوٹی پر واپس آنے کے بعد اس پر دستخط کرنے کے بعد پشاور بھیج دیا جائے گا۔ ہسپتال کے کورونا ویکسنیشن سنٹر میں موجود افراد کی اکثریت کریم آباد، مداشیل اور پرسان سے تعلق رکھنے والے معمر افراد کی پائی گئی جن میں خواتین بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ شوغور میں انتظام نہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہاں آنا پڑ رہا ہے۔ چترال کے عوامی حلقوں نے ڈی ایچ او، ڈی سی اور ایم ایس ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات