داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔ بند گلی کی سیا ست

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔ بند گلی کی سیا ست
بند گلی کی سیا ست
وطن عزیز کی سیا ست ایک بار پھر بند گلی میں دا خل ہو گئی ہے آگے دیوار ہے پیچھے کھائی کھود ی جا رہی ہے نہ یہاں سے آگے جا نے کا راستہ ہے نہ پیچھے مڑنے کی گنجا ئش ہے اب لکھنے والوں کی مثال کسی کھیل پر روان تبصرہ کرنے والوں کی طرح ہے تبصرہ جو بھی ہو میدان کے کھلا ڑی تبصرہ سن کر اپنی پو زیشن نہیں بدلتے کھلا ڑی کھیل میں مشغول ہوتا ہے یہاں سیا ستدان اپنی سیا ست میں منہمک ہیں لکھنے والے کیا لکھتے ہیں بولنے والے کیا کہتے ہیں سیا ستدانوں کی توجہ اس طرف نہیں ہوتی آج اگر کسی طبقے پر کا مل مد ہو شی طاری ہے تو وہ سیا ستدانوں کا طبقہ ہے یہاں صنف کی کوئی تمیز نہیں خواتیں و حضرات سب اس مد ہو شی میں شریک ہیں پا کستان 2020میں چار اہم مسائل سے دو چار ہے پہلا مسئلہ معیشت کا ہے، دوسرا مسئلہ دہشت گردی کا ہے، تیسرا مسئلہ توا نائی کے بحران کا ہے اور چو تھا مسئلہ نظم و نسق کے بحران کا ہے یہ چار وں مسائل ایسے ہیں جو وطن کی جڑوں کو اکھاڑنے میں مصروف ہیں سیا سی منظر نا مے پر ان میں سے کسی بھی مسئلے کا ذکر ہمیں نہیں ملتا سیا ست دا نوں کے بیا نات پر حزب مخا لف کی تحریک اور گلگت بلتسان کے انتخا بات حا وی نظر آتے ہیں دونوں کا تعلق ملکی مسائل یا ان کے حل سے نہیں ہے حزب مخا لف کی تحریک کو انگریزی میں نا ن ایشو یعنی لا یعنی بات کہا جا تا ہے ایسی بات جس کا کوئی سر پیرنہیں جس کا کوئی نتیجہ نہیں ملک کے مستقبل سے جس کا کوئی تعلق نہیں 1990ء کی دہا ئی میں ایسی تحریکیں دیکھی ہیں 1970ء کی دہا ئی میں بھی ایسی ایک تحریک دیکھی ہے 2014ء میں بھی ”استغفیٰ دو“ والا دھرنا گذرا ہے اس دھرنے میں طا ہر القادری اور شیخ رشید جیسے قادر لکلا م خطیبوں کی بے مثال تقریروں کے کلپ دستیاب ہیں ان میں فصا حت و بلا غت عروج پر ہے لیکن نتیجہ صفر ہے گلگت بلتستان کے انتخا بات کو بھی ہم آنکھیں بند کر کے نا ن ایشو کہہ سکتے ہیں وہاں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو کیا فرق پڑے گا ظاہر ہے کوئی فرق نہیں پڑے گا کسی اور کی حکومت آئی تب بھی حالات جوں کے توں رہینگے فرق کوئی نہیں پڑنے والا ان انتخا بات کا ملکی سیا ست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لا ہور اور کراچی کا ووٹر دیا مر اور گانچھے کے نتا ئج سے کوئی اثر قبول نہیں کرے گا چنا نچہ ملکی سیا ست پر حا وی دونوں مو ضو عات حقیقت میں نان ایشو یا لا یعنی باتیں ہیں ملک کے مستقبل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ”مجھے کیو ں نکا لا“ بہت پرا نا ہو گیا،”ووٹ کو عزت دو“ بھی گھِسا پٹا نعرہ ہے اس میں جان نہیں رہی دوسری طرف ”میں نہیں چھو ڑوں گا“ باربار کی تکر ار کے بعد اپنی افا دیت کھو چکا ہے ”این آر او نہیں دوں گا“ ایک ایسا نعرہ ہے جس کو ملک کی 80فیصد آبادی نہیں سمجھتی سننے والے کہتے ہیں کہ این آر او کوئی دوائی ہو گی یا نشہ ہو گا جو حزب مخا لف والوں کو چاہئیے حکومت کسی بھی قیمت پر دینے کو تیار نہیں جب کہا جا تا ہے کہ یہ لو گ این آر او مانگتے ہیں تو ملک کی 80فیصد آبادی سمجھتی ہے کہ این آر او کوئی گالی ہے کوئی ممنو عہ چیز ہے کوئی بری بات ہے عمو ماً اس کو گالی اور فحا شی کے زمرے میں ڈالا جا تا ہے عوام سمجھتے ہیں کہ حزب مخا لف کوئی بیہودہ چیز ما نگ رہی ہے جو حکومت نہیں دے رہی اس کو اگر اردو میں تر جمہ کیا جائے تو اس کے معنی ہو نگے ”قومی مصا لحت“ یعنی اگر یہ سچ ہے کہ حزب مخا لف قومی مصا لحت کا مطا لبہ کر تی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے قومی مصا لحت میں کیا برائی ہے 2006میں اُس وقت کے چیف آف آر می سٹاف جنرل پرویز مشرف نے قومی مصا لحت کا ایجنڈا طے کیا دوبئی میں جلا وطن سیا ستدا نوں کے ساتھ مذاکرات کئے امریکی سفارت کار بھی مذاکرات میں شریک ہوئے سعودی عرب اور متحدہ عرب اما رات کے منا ئندے بھی شریک ہوئے پا ک فوج کی طرف سے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اشفاق پرویز کیا نی مذاکرات میں مو جو د رہے جنرل مشرف کے دوست سابق بیو رو کریٹ طا رق عزیز نے بر وکر کا کر دار ادا کیا یوں قومی مصا لحت ہو گئی انگریزی میں اس کو نیشنل ریکانسی لی ایشن ارڈنینس کا نام دیا گیا جس کا مخفف این آر او ہے اس کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف وطن وا پس آگئے دونوں نے انتخا بات میں حصہ لیا این آر او کا اردو نا م قومی مصا لحت ہے اور یہ بند گلی سے سیا ستدا نوں کو بحفا ظت نکا لنے کا جا مع، سود مند، کار آمد فار مو لہ ہے 2006ء میں بنگلہ دیش میں بحران آیا تو عدلیہ نے قومی مصا لحت کرائی ہمارے ہاں عدلیہ کو اس طرح کا کردار نہیں دیا جا تا یہاں سیا ست جب بھی بند گلی میں دا خل ہو تی ہے پا ک فو ج آگے آکر معا ملات کو سنبھال لیتی ہے اور ملک کو عدم استحکا م سے بچا تی ہے جنرل مشرف سے پوچھاگیا کہ تم نے آئین کو کیوں معطل کیا تو اس نے جواب دیا کہ ملک کی بقا آئین پر مقدم ہے جب ملک خطرے میں ہو تو آئین کو نہیں ملک کو بچا نے کی ضرورت ہو تی ہے آج وطن عزیز کی سیا ست کو بند گلی میں دھکیلنے والے آئین کا نام لیتے ہیں تو مجھے جنرل مشرف کا مقولہ یا دآتا ہے۔