دھڑکنوں کی زبان۔۔ حسن نثا رصاحب سے ایک گزارش۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

حسن نثار صاحب ہمارے ادبی اور صحافتی سرمائے ہیں۔رب نے آپ کوکاٹ کی زبان اور بہت ہی مضبوط قلم دیا ہے۔ آپ کا علم،آ پ کاوژن بے مثال ہے۔ہم زمانہ طالب علمی سے آپ کے اخباری مضامین پڑھتے آئے ہیں۔آپ کے مضامین اور شاعری سے محظوظ ہوتے آئے ہیں۔۔ اللہ لمبی عمر دے۔۔آپ ہماری پہچان ہیں۔۔حسن نثار صاحب آج کل مختلف ٹی وی پروگراموں میں آتے ہیں اور اپنے پرمغز تبصیروں سے بڑے بڑے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اور اور ان کا حل بتاتے ہیں۔ان کی بے باکی پر واہ واہ کرنا پڑتا ہے۔۔حال ہی میں جناب فواد چودھری صاحب کی طرف سے بیان آیا کہ ہم مدرسہ بناتے رہے لوگوں نے سائنس میں ترقی کی۔۔ہم پیچھے رہ گئے۔۔ہم سب کی یہ رائے ہے کہ مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے نہ بڑھے۔اس پر سب افسوس کرتے ہیں۔ایک ٹی وی شو میں جب حسن نثار صاحب سے چودھری صاحب کے اس تبصیرے کے بارے میں سوال کیا گیا تو نثار صاحب نے اس کو بہت ساری دعائیں دی اور کہا سچ کہتا ہے تب میرے ذہن میں جو سوال آیا اس کاجواب نثار صاحب ہی دے سکتے ہیں۔۔مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ ہم سب دھراتے رہتے ہیں۔۔محمد بن موسی الخوارزمی نے دنیا کو ریاضی دیا۔ابن ہیشم نے دنیا کوطب دیا روشنی دی۔اگر ان کے پاس پیسے ہوتے تو اسوان ڈیم بنا کے دیتا۔دنیا کوحیران کرتا۔۔عمر خیام نے الجبرے کے فارمولے دیئے۔الکندی نے الفرابی نے کس کس نے کیا نہیں کیا۔۔پھر علم الکلام آیا اور ہمیں لوریان دے دے کرسولائے گئے۔سوچ بچار اور تحقیق ختم ہوئی۔علم صرف مذہب کا نام پڑ گیا۔ کائنات پر غور جس کا حکم اللہ نے قرآن میں جابجا دیاتھا ختم ہوا۔میں بہت دور نہیں جاتا ہوں۔۔پاکستان بننے کے بعد میرا عاجزانہ سوال ہے کہ حکومت نے کو نسا دارالعلوم بنایا۔۔دارالعلوم ان لوگوں نے بنائے جن کے پاس پیسے نہیں تھے ان کے پاس کوئی دینی ادارہ نہیں تھا وہ اپنے بچوں کو صرف دین سے خبر دار کرنے کے لئے دینی ادارے بنائے۔ان کے پاس نہ پیسہ تھا نہ جدید علوم کی سہولت تھی۔لیکن میری گزارش ہے کہ پاک سرزمین میں اس کے وجود میں آنے سے پہلے بھی اسلامیہ کالج کی طرح،گورنمنٹ کالج لاہور کی طرح ادارے تھے۔۔اور پھر کراچی یونیورسٹی،پشاور یونی،قائد اعظم یونی اور اس طرح کے بہت سارے ادارے بنے۔ ان کو حکومت نے بنایا مگر ان اداروں میں کیوں تحقیق و تعلیم کے ادارے نہیں بنائے گئے۔۔کیوں کوئی قابل اعتبار ریسرچ سنٹر نہیں بنایا جاتا۔کیوں سائنس کے لیب ویران ہیں۔ان یونیورسٹیوں سے ایم فل سکالر نکلتا ہے عجیب لگتا ہے نہایت معذرت کے ساتھ اس کے پاس کیا ہے۔۔وہاں سے پی ایچ ڈی کرنے والوں کی کیا حالت ہے ان سب یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی عالمی معیار کانہیں۔کیا ان میں سے کسی ایک کو ایسا معیاری نہیں بنانا چاہیے کہ لوگ ریسرچ کے لئے وہاں پہ آجائیں ہمارے کتنے سرمائے باہرپڑے ہیں وہ اپنا علم اور صلاحیت لے کے باہرملک جا کر ان کی خدمت میں لگے ہیں حسن صاحب آپ ہمارے سرمایے ہیں۔مجھے ڈاکٹر عبد الاسلام صاحب کا وہ انٹرویوجب یاد آتا ہے تو رونا آتا ہے وہ کہتا ہے۔کہ میں نے جب باہرملک سے پی ایچ ڈی کرکے بڑی آرزو لے کرپاکستان آیا کہ میں وہاں پرریسرچ سنٹر قائم کروں گاقوم کے ہونہار بچوں سے پی ایچ ڈی کراؤں گا۔۔ریسرچ کروں گا۔میں گورنمنٹ کالج لاہور آیا مجھے فزکس اور میتھز پڑھانے پہ لگایا گیا مجھے لیب بنانے کے پیسے دینے کی بجائے مجھے فٹ بال ایسوسیشن کا انچارچ بنایا گیا میں روتا رہا دھائی دیتا رہا مگر سب بے سود۔۔پھر میں واپس باہرملک چلا گیا۔۔کام کیا۔۔اب سر! یہ کس کی کوتاہی ہے۔۔قوم کی یا حکمرانوں کی۔آپ جیسے لوگ اس ملک میں ہیں جو مذہب کو ہدف تنقید بنانے کی بجائے حکمرانوں کو جھنجھوڑ کر ان کو یاد کیوں نہیں دلاتے کہ وقت کی ضرورت ہے۔۔ڈاکٹر قدیر خان ہر ملک کے پاس نہیں۔۔ڈاکٹر ثمر مبارک،ڈاکٹر انعام الرحمن وغیرہ ہر ملک کے پاس نہیں ہوتے۔ان کے لئے ادارہ بناؤ۔وہ قوم کے بچوں کی تربیت کریں گے۔ان کو تنخواہ مت دو خزانے کی چابیاں ان کے حوالے کرو۔۔دنیا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تحقیق و تعلیم کا معیار ہے کیا یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کی بات نہیں ہے کہ ہمارے پاس کوئی ادارہ نہیں۔۔